وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل تیل پر سبسڈی کے لیے پیسے کہاں سے لارہے ہیں؟
معاشی ماہرین نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنی پوزیشن واضح کرے اگر ایندھن پر سبسڈی قومی معیشت کی بحالی میں رکاوٹ ہے تو اسے اب تک کیوں جاری رکھا جا رہا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل ن) کی حکومت کی جانب سے ایندھن پر سبسڈی جاری رکھنے پر سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ، وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سابقہ حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ خاطر خواہ فنڈز نہ ہونے کے باوجود تیل اور بجلی پر سبسڈی دی گئی جس کی وجہ سے خزانہ دباؤ میں آگیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے ایک بار پھر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم سی این جی اور آر ایل این جی سمیت دیگر ایندھن کے نرخوں میں اضافہ کردیا گیا جس سے بجلی کی پیداواری لاگت بڑھنے کے علاوہ صنعتی اور برآمدی یونٹ متاثر ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے
پنجاب میں 70 روپے فی کلو چینی کا حصول ناممکن ہوگیا، حکومت بیانات تک محدود
عوام کے لیے بڑی خوشخبری، حکومت کا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہ بڑھانے کا فیصلہ
ایک جانب وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل پی ٹی آئی حکومت کی غلط معاشی پالیسیز پر تنقید کرتے ہوئے کہہ رہے کہ خزانہ خالی اور دوسری جانب تیل اور بجلی پر سبسڈی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سابقہ حکومت نے قومی خزانے میں کچھ نہیں چھوڑا سوائے بھاری قرضوں اور متعدد سبسڈیز کے۔
گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا تھا کہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کر رہی ، تاہم اس حوالے سے سمری وزیر اعظم شہباز شریف کو بھجوا دی گئی ہے۔
پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’تیل کی قیمتوں میں اضافے سے اشیائے خرونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، جو کہ مہنگائی کا مرکز ہے اور اس کا اثر براہ راست عام آدمی پر پڑتا ہے۔‘‘
وزیر خزانہ کا کہنا تھا وزیراعظم شہباز شریف پہلے سے مہنگائی کے ستائے ہوئے غریب عوام کو ریلیف دینا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب مفتاح اسماعیل نے اپنے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہےئ کہ "ایندھن کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہ کرنے کا فیصلہ آج کے لیے تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بدلتے ہوئے حالات اور تیل کی بین الاقوامی قیمتوں کی وجہ سے، انہیں جلد ہی اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنا پڑ سکتی ہے۔”
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ زیر التواء مذاکرات 18 مئی کو دوحہ میں ہوں گے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا بین الاقوامی مالیاتی قرض دینے والی ایجنسی کے ساتھ ایک جائزہ میٹنگ کی جائے گی اور انہیں اس سلسلے میں کیے گئے فیصلے کے بارے میں آگاہ کریں گے۔ آئی ایم ایف کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ ہم عوام پر ایک دم سے مہنگائی کا بوجھ نہیں ڈال سکتے اس لیے پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی دے رہے ہیں۔
مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ سعودی عرب سمیت دیگر دوست ممالک نے اقتصادی تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے جبکہ ان کی ممالک کی جانب سے جمع کرائی گئی رقم کی واپسی کی مدت میں توسیع پر بات چیت جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے دسمبر 2022 سے ڈپازٹس کی مدت بڑھانے کا وعدہ کیا تھا اور ڈپازٹس میں اضافے پر بات چیت کرنے پر بھی اتفاق کیا تھا۔
مفتاح نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے درآمدات اور برآمدات میں عدم توازن پیدا ہوا۔
سابق وزیر خزانہ پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف سے ایندھن کی قیمتوں پر سبسڈی مرحلہ وار ختم کرنے پر وعدہ کیا تھا۔
اسماعیل کو ترین کا جواب
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل ن) کی حکومت کے پاس کوئی معاشی پالیسی نہ ہونے اور ہر فیصلے میں الجھن کا شکار دکھائی دینے پر تنقید کی ہے۔
نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے شوکت ترین کا کہنا تھا کہ "پی ٹی آئی حکومت نے کبھی بھی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے سبسڈی ختم کرنے کا وعدہ نہیں کیا تھا کیونکہ سبسڈی دینے سے قبل ہی مطلوبہ فنڈز فراہمی کے لیے ایک جامع پالیسی ترتیب دی گئی تھی۔”
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ "موجودہ حکومت معاشی چیلنجز سے نمٹنے میں ناکامی کے بعد گھبراہٹ کا شکار ہے۔ ہماری حکومت نے قوم کو ریلیف دینے کے لیے سبسڈی فراہم کی تھی۔ سبسڈی کی منظوری سے قبل پی ٹی آئی حکومت نے مطلوبہ فنڈز کا بندوبست کر لیا تھا۔”
دوسری جانب معاشی ماہرین نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنی پوزیشن واضح کرے اگر ایندھن پر سبسڈی قومی معیشت کی بحالی میں رکاوٹ ہے تو اسے اب تک کیوں جاری رکھا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایندھن پر سبسڈی جاری رکھنے کی وجوہات بتائے اگر اس سے ملک کو طویل المدتی بنیادوں پر کوئی فائدہ نہیں ہو رہا اور ایسی صورت میں جب پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت نے خاطر خواہ فنڈز بھی نہیں چھوڑے تھے۔