حکمران اتحاد ڈیرھ سال پورے کرے گا ، معیشت سنبھلے گی یا بگڑے گی؟
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے اگر حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا تو ملک میں مہنگائی کا سونامی آئے گا ، جو مسلم لیگ (ن) کی سیاست کو بہا کر بھی لے جاسکتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اتحادیوں نے عمران خان کے جلد انتخابات کے مطالبے کو پس پشت ڈالتے ہوئے اگست 2023 تک حکومت میں رہنے کا فیصلہ کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کو تمام فیصلوں پر تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت پرائم منسٹر ہاؤس میں حکومت کے اتحادیوں کا اہم اجلاس ہوا۔ اجلاس میں اتحادیوں نے سابق وزیراعظم عمران خان کے جلد الیکشن کے مطالبے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے حکومت کو اپنی مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، ایم کیو ایم پی کے خالد مقبول صدیقی اور وفاقی وزراء اعظم نذیر تارڑ، خواجہ آصف اور مریم اورنگزیب نے شرکت کی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ حکومت ملک کو معاشی بدحالی سے نکالنے کے لیے اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔
یہ بھی پڑھیے
وزیراعلیٰ سندھ نے صوبے میں 50 ہزار نئے اساتذہ کی بھرتی کا عندیہ دے دیا
تحریک انصاف کے 25 منحرف اراکین پنجاب اسمبلی کی قسمت کا فیصلہ کل
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جلد سے جلد انتخابی اصلاحات کی جائیں گیں اور معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈر ملکر کام کریں گے۔ عمران خان حکومت کی جو ناکامیاں تھی اور معیشت کے حوالے سے ان کے جو فیصلے تھے ان کو عوام کے سامنے رکھا جائے گا۔
شہباز شریف حکومت کے اتحادیوں نے بھی سخت فیصلے لینے کا فیصلہ کیا۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی قیادت میں ایک وفد آج بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے ساتھ مذاکرات کے لیے دوحہ روانہ ہوگا۔ بات چیت میں توسیعی فنڈ سہولت کے تحت 1 بلین ڈالر کی قسط کے معاہدے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے حکومت اور اتحادیوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ سخت فیصلے کرنے ہوں تو صاف ظاہر ہے کہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرے گی جس کے بعد ملک میں مہنگائی کا سونامی آئے گا، اور پھر عمران خان اور ان کی ٹیم کو کھل کر حکومت کے خلاف بات کرنے کا موقع ملے گا ، تو کیا یہ بدنامی کا بوجھ حکومت کی ساری اتحادی جماعتیں مل کر اٹھائیں گی یا پھر یہ بوجھ صرف مسلم لیگ (ن) کو برداشت کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ جو مشکل فیصلے ہوتے ہیں ان کا براہ راست اثر ہمیشہ عوام کے سر پر آتا ہے ، حکومت میں رہنے والی جماعتوں کی عیاشیاں تو ویسے ہی چلتی رہتی ہیں جیسے مشکل فیصلوں سے قبل چل رہی ہوتی ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف ہمیشہ پیٹرول اور بجلی پر سبسڈی ختم کرنے کا کہتا رہتا ہے اس نے کبھی یہ نہیں کہا کہ حکمران جماعت اپنی عیاشیاں ختم کرے ، جو مراعات وہ خود کو دے رہے ہیں وہ ختم کی جائیں ، اصل میں آئی ایم ایف بھی اس گندے کھیل کا حصہ ہوتی ہے جس میں حکومتیں عوام کے سامنے گندی ہوں۔ اس لیے شہباز شریف پر یہ بہت بڑی ذمہ داری عائد ہونے جارہی ہے کہ وہ ایسی پالیسی لائیں جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان ایک ہفتے کی دوری پر ڈیفالٹ ہونے سے ۔ اور اگر یہ لوگ انتخابی اصلاحات کی طرف جائیں گے اور عمران خان کے مطالبے کو نہیں مانیں گے تو چیئرمین پی ٹی آئی اس طرح حکومت کو غیرمستحکم کرنے کے لیے جلسے اور تقریریں کرتے رہیں گے ، یا شائد ہم نے ڈیفالٹ ہونے کی تیاری کررھی ہے۔ اگر حکومت نے عمران خان کا جلد الیکشن کا مطالبہ نہیں مانا تو وہ لانگ مارچ کریں گے ، روپیہ گرنا چلے جائے گا اور ملک مزید قرضوں میں ڈوبتا چلے جائے۔