روزنامہ ڈان نے نگراں حکومت سے متعلق حامد میر کا دعویٰ غلط ثابت کردیا

جمعرات کو اسلام آباد ان افواہوں کی لپیٹ میں رہا کہ اسٹیبلشمنٹ  نے ممکنہ قبل از وقت انتخابات سے قبل عبوری حکومت پر مشاورت شروع کر دی ہے،روزنامہ ڈان: حامد میر نے ڈی جی آئی ایس پی آر کا حوالہ دیکر ان افواہوں کی تردید کی تھی

انگریزی روزنامہ ڈان نے نگراں حکومت کے قیام اور ںگراں وزیراعظم کیلیے اسلام آباد میں انٹرویوز  ہونے سے متعلق خبر شائع کرکے سینئر اینکر پرسن حامد میر کے دعوؤں کو غلط ثابت کر دیا۔

حامد میر نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اس حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آرسے رابطہ کیا تھا جنہوں نے ان افواہوں کی سختی سے تردید کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ڈی ڈے: انتخابات یا لانگ مارچ، اہم اعلان آج ہوگا

بلاول بھٹو کا عمران خان کے دورہ روس کی حمایت کرکے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ

گزشتہ روز شاہ زیب خانزادہ کی میزبانی میں جیو نیوز کی خصوصی نشریات میں  گفتگو کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر شیخ رشید نے دعویٰ کیا تھا کہ اسلام آباد میں نگراں حکومت کے لیے بات چیت جاری ہے جس کی قیادت ماہر معاشیات کریں گے۔انہوں نے کہا کہ   اسلام آباد میں نگراں وزیراعظم کیلیے معاشی ماہرین کے انٹرویوز ہورہے ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ موجودہ حکومت کی جانب سے نئے انتخابات کے لیے ڈیڑھ  سال کا وقت دینے کی درخواست مسترد کردی گئی۔ شہباز شریف انتخابات میں تاخیر کی صورت میں مسلم لیگ ن کے سیاسی نقصان سے بخوبی آگاہ ہیں۔

نشریات میں شریک سینئر اینکر  پرسن حامد میر نے شیخ رشید کے دعوؤں کو من گھڑت اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں نے شیخ رشید کے بیان کی تردید کی۔

حامدمیر نےانتہائی سخت لہجہ استعمال کرتے ہوئے شیخ رشید کے بیانات  کو محض افواہ قرار دیا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ  آئی ایس پی آر نے بھی سابق وزیر داخلہ کے دعووں کو مسترد کردیا ہے۔فوجی ترجمان کی جانب سے شیخ رشید کےدعوؤں کو مسترد کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے  حامد میر نے کہا کہ وہ ایک چالاک سیاستدان ہے اور قومی اداروں کا نام لے کر لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔

دوسری جانب سینئر صحافی اور اینکرپرسن  نجم سیٹھی نے بھی اپنے ٹوئٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ کیا اس حکومت کو ملٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر پارلیمنٹ تحلیل کر کے انتخابات کرانے چاہئیں؟ کیا ملٹیبلشمنٹ  ڈکٹیشن قبول نہ کرنے پر اس  حکومت کو نکال باہر کرے گی؟

ادھر روزنامہ ڈان نے  اپنی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ  جمعرات کو وفاقی دارالحکومت ان قیاس آرائیوں کی لپیٹ میں رہا کہ اسٹیبلشمنٹ  نے ممکنہ قبل از وقت انتخابات سے قبل عبوری حکومت کے قیام کے لیے مشاورت شروع کر دی ہے۔

قبل از وقت انتخابات کے مطالبات کے درمیان نگراں سیٹ اپ کے آنے کے امکان کے بارے میں افواہوں سے سیاسی حلقے بھی پریشان تھے۔ شاید یہ اس پس منظر میں تھا کہ اہم حکمران اتحادی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ رہنماؤں نے اعلان کیا کہ وہ قبل از وقت انتخابات  میں جانے سے زیادہ خوش ہوں گے۔

یہ قیاس آرائیاں ان اطلاعات کے سامنے آنے کے بعد شروع ہوئیں کہ سابق وزرائے خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ اور شوکت ترین کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر رضا باقر نے سینئر عسکری رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں۔

ایک ذریعے نے روزنامہ ڈان کو تصدیق کی کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے درحقیقت کم از کم دو دیگر ٹیکنوکریٹس کے ساتھ  سیاست دانوں کی موجودگی میں عسکری قیادت کے ساتھ ملاقات میں شرکت کی تھی ۔

ملاقات کا ایجنڈا  آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے سلسلے میں آگے بڑھنے کے راستے پر غور کرنا تھا۔ذرائع  نے مزید بتایا کہ ڈیل کے دوران آئی ایم ایف کے ساتھ مشترکہ محاذ قائم کرنے کی ضرورت پر اتفاق رائے ہوا ۔

ملاقات میں شریک ایک  فرد نے کہا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرض کی ضرورت ہے، ہمیں معاشی مسائل پر سیاست نہیں کرنی چاہیےتاہم آئی ایس پی آر سے جب ایسی ملاقاتوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ سب افواہیں اور بے بنیاد بیانات ہیں جن میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

متعلقہ تحاریر