ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس، سائفر سے متعلق کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ
جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے اضافی نوٹ میں سائفر پر لکھا ہے کہ ’یہ بات نوٹ کی جائے کہ جس وقت ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دی، اس وقت تک انھوں نے سائفر کا متن نہیں پڑھا تھا کیوں کہ یہ کوڈڈ تھا۔‘
سپریم کورٹ نے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ کے خلاف از خود نوٹس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کے فیصلہ غیر آئینی دیا جبکہ عدالت عظمیٰ کا کہنا تھاکہ اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد 8 مارچ کو پیش ہونے کے بعد 22 مارچ کو اجلاس نہ بلا کر جبکہ 3 اپریل کے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن کو بحث کا موقع نہ دے کر آئین پاکستان کی خلاف ورزی کی۔
سپریم کورٹ نے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ کے خلاف از خود نوٹس کا فیصلہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مقدمہ کی سماعت کے دوران بینچ کے سامنے خفیہ سائفر کا مکمل متن پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی تحریک انصاف بیرونی سازش کے شواہد دے سکی۔
یہ بھی پڑھیے
ڈی جی نیب کا نہلا پر دہلا، چیئرمین پی اے سی پر سنگین الزامات عائد کردیئے
بابر غوری رہائی کے بعد وہ کام کرینگے جس کیلئے آئیں ہیں
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے تحریر کردہ 86 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ نے جاری کیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلے دیتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد کو مسترد کرنے کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسمبلیاں بحال کرنے اور عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس نو اپریل کو طلب کرنے کا مختصر فیصلہ سُنایا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت نے آئین کے تحفظ کی ڈیوٹی کے تحت تین اپریل کو معاملے پر از خود نوٹس لیا ’جس کی وجہ ڈپٹی اسپیکر کا وہ قدم تھا جس میں انھوں نے آئینی اختیارات کی خلاف ورزی کی۔‘
فیصلے میں کہا گیا کہ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی وجہ سے نہیں ہو سکی اور عدالت نے ملک میں آئین کے تحفظ کے لیے قدم اٹھایا۔
عدالتی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ تین اپریل کو ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے دی گئی رولنگ غیر قانونی تھی۔
’ڈپٹی اسپیکر کو یا تو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کروانی چاہیے تھی یا پھر وزیر قانون کی جانب سے اٹھائے گئے نکتے پر بحث کروانی چاہیے تھی اور پھر ووٹ کی جانب بڑھنا چاہیے تھا لیکن انھوں نے ان میں سے کوئی قدم نہیں اٹھایا اور تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔‘
عدالت کے مطابق اسپیکر کے پاس آئین کی تشریح کرتے ہوئے ایسی کوئی رولنگ دینے کا اختیار نہیں جس کا قومی اسمبلی کے بزنس سے تعلق نہ ہو۔
عدالت کے مطابق آئین کے آرٹیکل پانچ کا قومی اسمبلی بزنس سے کوئی تعلق نہیں جس میں ہر شہری کی اس ڈیوٹی کا ذکر ہے کہ وہ ریاست اور آئین سے وفاداری کرے گا۔
عدالت کے مطابق اس آرٹیکل کی کسی خلاف ورزی کے خلاف شواہد کے ساتھ کسی عدالت سے رجوع کرنا چاہیے جہاں جس پر الزام لگایا جائے اس کو سننے کا موقع بھی دیا جائے۔ ’اس کیس میں یہ اپوزیشن جماعتوں کے اراکین تھے جن پر مبینہ طور پر غیر ملکی ریاست کے ساتھ مل کر سازش کا الزام لگایا گیا۔‘
عدالتی فیصلے کے مطابق کیوں کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر قانونی تھی، اسی لیے وزیر اعظم کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز اور صدر کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے کے حکم نے بھی آئینی حیثیت کھو دی ہے۔
عدالت کے مطابق ’کورٹ کو اس چیز سے کوئی مطلب نہیں کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے یا ناکام ہوتی ہے۔‘
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ آرٹیکل 69 (1) واضح ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو عدالت سے تحفظ حاصل ہے، پارلیمانی کارروائی میں آئینی خلاف ورزی ہو تو اس پر کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے، عدالت مقننہ کے معاملات میں آئینی حدود پار نہ ہونے تک مداخلت نہیں کرے گی۔
آئین کے آرٹیکل 95 (2) کے تحت اسپیکر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کروانے کا پابند ہے، ڈپٹی اسپیکر رولنگ کو آئینی تحفظ حاصل نہیں، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دینے کا فیصلہ ذاتی طور پر وزیر قانون کے کہنے پر لیا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت آرٹیکل 69 (1) پر اپنا مؤقف واضح کرتی ہے، ڈپٹی اسپیکر کے اپنے اختیارات سے متعلق آرٹیکل 69 (1) پرعملدرآمد میں نقائص تھے، تحریک عدم اعتماد 8 مارچ کو پیش ہونے کے بعد 22 مارچ کو اجلاس نا بلا کر اسپیکر نے آئینی کی خلاف ورزی کی اور اسپیکر نے 3 اپریل کے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن کو بحث کا موقع نہ دے کر آئینی خلاف ورزی کی۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ رولنگ آئین میں اسپیکر کو دیے گئے اختیار سے تجاوز تھا، رولنگ دینے کا اختیار صرف اسپیکر کے پاس ہے، ڈپٹی اسپیکر کو نہیں، سائفر قومی اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا اور اس سے متعلق کسی ممبر قومی اسمبلی کو بولنے کی اجازت نہیں دی گئی، ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 95 کو نظر انداز کیا، ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 5 کے تحت رولنگ دی جو اس کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا۔
عدالت عظمیٰ کےفیصلے میں کہا گیا کہ اپوزیشن پر بیرونی سازش کا حصہ ہونے کا الزام لگایا گیا مگر اس کا مؤقف نہیں لیا گیا، آئین اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں تاخیر کا اختیار نہیں دیتا، ڈپٹی اسپیکر یا اسپیکر کے پاس تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا بھی آئینی اختیار نہیں، تحریک عدم اعتماد صرف ووٹنگ سے ہی منظور یا مسترد ہو سکتی ہے۔
ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین کے آرٹیکل 95 اور 69(1) کی تضحیک اور غیرقانونی ہے، انکوائری کمیشن قائم کر کے بیرونی سازش کی تحقیقات کرائی جا سکتی تھیں، سپریم کورٹ سے قومی سلامتی کیخلاف سازش سے متعلق ازخودنوٹس کی استدعا کی گئی لیکن سپریم کورٹ اس طرح کے معاملے پر نوٹس نہیں لے سکتی۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں متنازع غیر ملکی مراسلے پر مفصل انداز میں بات کی گئی ہے۔
عدالت کے مطابق اس وقت کی حکومت نے کارروائی کے دوران اس سائفر کا مکمل متن کورٹ کو نہیں دکھایا البتہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے حق میں دیے جانے والے دلائل میں اس سائفر کے چند حصے پیش کیے گئے۔
عدالتی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ’ہمارے سامنے اس مبینہ سازش کے بارے میں صرف وہی معلومات ہیں جو ڈپٹی اسپیکر کی رائے اور خدشات کی شکل میں سامنے آئیں لیکن ان کی رولنگ یا اس کی وجوہات میں انھوں نے کہیں یہ دعوی نہیں کیا کہ سائفر میں یہ ثابت ہوتا ہے اپوزیشن جماعتوں کے ممبران کسی غیر ملکی ریاست کے ساتھ مل کر وزیر اعظم اور ان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے۔‘
فیصلے کے مطابق تین اپریل کو ڈپٹی اسپیکر کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ تحریک عدم اعتماد سے جڑے مراسلے کے متن اور اثرات پر قومی اسبلی میں بحث کروائیں لیکن انھوں نے قومی اسمبلی کے کسی بھی رکن کو سنے بغیر، اور عدم اعتماد پر ووٹنگ کروائے بنا ہی وفاقی وزیر کے الزامات پر مشتمل بیان کی بنیاد پر اسے مسترد کر دیا۔
’ایسا کرتے ہوئے نہ صرف ڈپٹی سپیکر نے آئین کے آرٹیکل پچانوے کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا بلکہ آرٹیکل پانچ پر بھی رولنگ دے دی جو ان کے اختیار اور دائرہ کار سے باہر تھا۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے اضافی نوٹ میں سائفر پر لکھا ہے کہ ’یہ بات نوٹ کی جائے کہ جس وقت ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دی، اس وقت تک انھوں نے سائفر کا متن نہیں پڑھا تھا کیوں کہ یہ کوڈڈ تھا۔‘
’ہم حیران ہیں کہ سائفر کا متن پڑھے بغیر ہی ڈپٹی اسپیکر کو کیسے معلوم ہوا کہ کوئی سازش ہوئی ہے اور کس نے کی ہے؟‘
جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 69 قومی اسمبلی کے اندورنی معاملات پر عدالتی دائرہ کار مکمل طور پر ختم نہیں کرتا۔
فیصلے کے مطابق ’سائفر کا متن بنچ کے سامنے نہیں رکھا گیا اور نہ ہی ان ممبران قومی اسمبلی کو دیا گیا جن پر پاکستان کے خلاف غیر ملکی سازش میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا۔‘
’عدالتی بنچ یا قومی اسمبلی کو کوئی ایسے شواہد بھی پیش نہیں کیے گئے جن میں مبینہ سازش کا حصہ بننے والے ممبران کے نام ہوتے یا پھر دیگر ممبران اسمبلی پر تحریک عدم اعتماد کا حصہ بننے کے لیے دباو یا کسی اور کسی قسم کی کوشش کے ثبوت بھی نہیں دیے گئے۔‘
عدالتی فیصلے میں اہم نکتے کے مطابق ’ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں معاملے کی انکوائری کی تجویز ثابت کرتی ہے کہ ڈپٹی سپیکر نے اعتراف کیا کہ ان کو بیرونی سازش سے متعلق جو مواد دیا گیا وہ یا تو نا مکمل تھا، یا پھر سازش کو ثابت کرنے کے لیے ناکافی تھے۔‘
عدالت عظمیٰ کا کہنا تھاکہ آئین کے آرٹیکل پانچ کا قومی اسمبلی بزنس سے کوئی تعلق نہیں جس میں ہر شہری کی اس ڈیوٹی کا ذکر ہے کہ وہ ریاست اور آئین سے وفاداری کرے گا۔
عدالت کے مطابق اس آرٹیکل کی کسی خلاف ورزی کے خلاف شواہد کے ساتھ کسی عدالت سے رجوع کرنا چاہیے جہاں جس پر الزام لگایا جائے اس کو سننے کا موقع بھی دیا جائے۔ ’اس کیس میں یہ اپوزیشن جماعتوں کے اراکین تھے جن پر مبینہ طور پر غیر ملکی ریاست کے ساتھ مل کر سازش کا الزام لگایا گیا۔