پاکستانی نوجوان کیوں ایران اور ترکی کے ویرانوں میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔؟

گزشتہ برس ستمبر میں پنجاب کے شہر وزیرآباد کے ایک ہی خاندان کے تین افراد غیر قانونی طور پر ایران کے راستے ترکی جانے کی کوشش کرتے ہوئے صحرا میں بھوک اور پیاس کی وجہ سے جان کی بازی ہارگئے۔

بلوچستان کے ضلع چاغی کے سرحدی شہر تفتان میں رواں ماہ ایرانی حکام نے راہداری گیٹ کے راستے پہلے  140 اور ایک ہفتے بعد مزید 55 غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کو ملک بدر کر کے لیویز فورس کے حوالے کر دیا۔

تفتان میں ہر ہفتے سیکڑوں پاکستانی باشندوں کو جن میں سے اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہوتی ہے انہیں ایرانی حکام کی جانب سے پاکستان کے حوالے کیا جانا اس قدر معمول بن چکا ہے کہ اب اکثر ان خبروں کو مقامی اور قومی ذرائع ابلاغ میں جگہ نہیں ملتی۔

یہ بھی پڑھیے

خیبرپختونخوا میں سیلاب اور بارشوں سے 20 افراد جاں بحق ، 312 مکانات مکمل تباہ

تباہ حال بلوچستان کی خوشحال ترجمان کی فل میک اپ اور دلہن کے لباس میں پریس کانفرنس

ایک سانحہ گزشتہ برس ستمبر میں ہوا جب پنجاب کے شہر گوجرانوالہ کی تحصیل وزیرآباد کے ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے تین افراد غیر قانونی طور پر ایران کے راستے ترکی جانے کی کوشش کرتے ہوئے صحرا میں بھوک اور پیاس کی وجہ سے جان کی بازی ہارگئے۔ایجنٹ نے انہیں صرف ایک لاکھ 68ہزار روپے کے لئے لق و دق صحرا میں چھوڑ دیا تھا۔گھر والوں کو ان تینوں افراد کی موت کا علم تین ہفتے بعد اس وقت ہوا جب ان میں سے ایک شخص کے شناختی کارڈ کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔

بدقسمت بلال  اورسجاد علی سمیت تین نوجوان پانی اور کھانا نہ ملنے کی وجہ سے موت کا شکار ہوگئے۔

ضلع چاغی کی تحصیل تفتان کے اسسٹنٹ کمشنر نے تین دن کی انتھک کوششوں کے بعد لاشیں برآمد کرلی جو تین ہفتے سے زیادہ صحرا میں پڑے رہنے کی وجہ سے 65 فیصد تک ڈی کمپوز ہوچکی تھیں۔

جس پر قومی میڈیا میں غیر قانونی طور پر روزگار کی تلاش میں جانے والوں کے معاملے اور اس حوالے سے ایجنٹوں کی ملی بھگت اور متعلقہ اداروں کی نادانستہ اور دانستہ غفلت کے بھی کچھ چرچے ہوئے اور پہلے کی طرح بغیر کسی نتیجے پر پہنچے یا غیر قانونی آمدو رفت روکنے کے اقدامات کے بنا ہی یہ معاملہ گویا حل ہوگیا۔

اب بھی تقریباً ہر ہفتے ہی یہ خبر سامنے آتی ہے کہ اتنے سو  پاکستانی باشندے ایران کے راستے غیر قانونی طور پر ترکی جانے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے گئے جنہیں ایرانی حکام نے پاکستان کے سرحدی شہر تفتان میں لیویز حکام کے حوالے کردیا جنہیں بعد میں مزید کارروائی کے لئے ایف آئی اے کے حوالے کردیا جاتا ہےجبکہ کئی نوجوان غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرتے ہوئے ایرانی ،ترکی اور یونان کی افواج کی فائرنگ کا نشانہ بن جاتے ہیں اور پھر بھوک ، پیاس ، شدید سردی اور پیدل پُرمشقت سفر ان کی جان لے لیتے ہیں۔ان بدقسمت افرد کی لاشیں خاندان کومل جائے تو اسے خوش قسمتی تصور کیا جاتا ہے ورنہ اکثر تو یہ لاشیں صحراؤں یا ویرانوں میں ہی پڑی رہتی ہیں اور رشتہ دار  برسوں ان کے زندہ ہونے کی امید لگائے منتظر رہتے ہیں۔

بہتر مستقبل کے لیے غیر قانونی راستہ اختیار کرنے والے یہ پاکستانی افراد زمینی راستے سے بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے انسانی سمگلر انہیں ایران لے جاتے ہیں۔ جہاں سے وہ ترکی پہنچتے ہیں جبکہ ترکی سے  وہ یونان میں داخل ہو کر یورپی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔

ایران کے ساتھ بلوچستان کے پانچ اضلاع کی ساڑھے نو سو کلومیٹر سے زائد کی سرحد لگتی ہے اس لیے انسانی سمگلر انھیں ان اضلاع سے ایران میں داخل کراتے ہیں۔

ان اضلاع میں چاغی، واشک، پنجگور، کیچ اور گوادر شامل ہیں۔

ایران سے متصل ان پانچ اضلاع کے سرحدی علاقے انتہائی دشوار گزار راستوں پر مشتمل ہیں اس لیے وہ ان راستوں سے پہلے ان افراد کو ایران میں داخل کراتے ہیں۔

پانچ چھ سال قبل غیر قانونی طور پر ایران جانے کی کوشش کرنے والے افراد کی اکثریت کو مکران ڈویژن کے دو اضلاع کیچ اور گوادر سے ایران لے جایا جاتا تھا۔

یہ افراد پہلے کراچی میں جمع ہوتے تھے جہاں سے گاڑیوں کے ذریعے کیچ اور گوادر کے سرحدی علاقوں سے ان کو ایران میں داخل کرایا جاتا تھا۔

ایف آئی اے کے اہلکار کے مطابق اب انسانی سمگلروں نے اس روٹ کے بجائے کوئٹہ-تفتان روٹ کو زیادہ استعمال کرنا شروع کیا ہے۔

بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ کوئٹہ-تفتان روٹ پر زیادہ انحصار کی شاید ایک بڑی وجہ کیچ اور اس سے متصل علاقوں میں ہونے والے وہ دہشت گردانہ حملے تھے جن میں غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی کوشش کرنے والے بھی نشانہ بنتے رہے۔

اب چاغی آنے کے بعد ان افراد کو چاغی یا اس سے متصل واشک کے علاقے ماشکیل اور اس سے جڑے ضلع پنجگور کے سرحدی علاقوں سے ایران پہنچایا جاتا ہے۔

ضلع کیچ اور اس سے متصل بعض علاقے شورش سے زیادہ متاثر ہیں۔ چند سال قبل ضلع کیچ کے سرحدی علاقوں سے غیر قانونی طور پر ایران جانے والے پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد پر ہونے والے حملوں میں درجنوں افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق انسانی سمگلر اب لوگوں کو پاکستان کے مختلف علاقوں سے کوئٹہ لاتے ہیں اور پھر یہاں سے ان کو گاڑیوں کے ذریعے چاغی لے جایا جاتا ہے۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری نے بھی نوجوانوں کی بڑی تعداد کو غیر قانونی طور پر ایران،ترکیہ اور یونان کے پر خطر راستے سے یورپ کی جانب راغب کیا ہے۔

غربت سے تنگ نوجوانوں کی اکثریت جن کا تعلق  پنجاب کے مختلف علاقوں سے ہوتا ہے ،ماں اور بیوی کے زیورات فروخت اور مکانات گروی رکھ کر یورپ کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں جن میں سے بہت سوں کے لیے یہ سفر ،سفر آخرت ثابت ہوتا ہے۔

غیر قانونی تارکین وطن ایران اور یا پھر ترکیہ میں گرفتار کرلئے جاتے ہیں۔نہیں نو تفتیش اور جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد انہیں ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان میں پاکستانی حکام کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔لیویز افراد کو ایف آئی اے حکام کو سونپ دیتے ہیں،جو انہیں تفتان سے کوئٹہ لے آتے ہیں جہاں ان افراد کو عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔قانون کے مطابق ان افراد کو سزا ہو سکتی ہے مگر پاکستانی جیلوں میں پہلے ہی گنجائش سے زائد قیدی موجود ہونے کے سبب ہر ہفتے حوالے کئے جانے والے سینکڑوں افراد کو جرمانہ کر کے کے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

رہائی کے بعد یہ افراد پیسے نہ ہونے کے سبب جرمانے کی ادائیگی کے لیے لیے بھاری سود پر قرض لینے پر مجبور ہوتے ہیں ،وہاں سفری اخراجات، کھانے اور رہائش کی مد میں بھی بھاری رقم ادا کرنی پڑتی ہے ،جو انہیں اپنے اہل خانہ سے منگوانی ہوتی ہے،کئی مرتبہ یہ شکایات بھی سامنے آچکی ہیں کہ رقم کی ادائیگی تک انہیں قرض دینے والے پیشہ ور افراد کی قید میں رہنا پڑتا ہے۔

پنجاب کے ضلع گجرات، گجرانوالہ اور ملک کے دیگر علاقوں میں انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائی نہ کیا جانا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔

گمبھیر صورتحال پر اٹھائے گئے سوالات

گوجرانوالہ ،گجرات اور پنجاب کے دیگر اضلاع کے نوجوانوں کو ایرانی حکام کیوں پاکستان کے سرحدی حکام کے حوالے کرتے ہیں۔؟

یہ نوجوان غیر قانونی طور پر ایران ترکیہ اور یونان کے راستے یورپ جانے کی کوشش کیوں کرتے ہیں۔؟

 یورپ جانے کی کوشش کرنے والے سینکڑوں نوجوان رستے میں ہی کیوں دم توڑ دیتے ہیں۔؟

لوگوں کو لاکھوں روپے لے کر غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے ایجنٹ کیوں گرفتار نہیں ہوتے۔؟

ایرانی حکام کی جانب سےحوالے کئے جانے والے کے بعد ان افراد سے کیا سلوک کیا جاتا ہے۔؟

یہ اور اس جیسے بہت سے سوالات ہر بڑے حادثے کے بعد پوچھے جاتے ہیں اور نتیجہ پھر وہی یعنی کے "ڈھاک کے تین پات۔”

اور پھر ایک اور حادثہ یا سانحہ رونما ہوجاتا ہے۔

متعلقہ تحاریر