نیب نے ملکی معیشت میں کیا حصہ ڈالا ؟ سپریم کورٹ نے جواب طلب کرلیا
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر قومی احتساب بیورو سے جواب طلب کر لیا۔
سپریم کورٹ نے نیب قانون میں ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر نیب سے جواب طلب کرلیا جبکہ حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھاکہ عمران خان سے پوچھا جائے کہ پہلے وہ نیب ترامیم کےحامی تھے مخالفت کیوں کررہے ہیں؟صدر کا وزیراعظم کو لکھا گیا خفیہ خط عمران خان کی درخواست کا حصہ کیسے بنا۔؟
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھاکہ وہ نئی نیب ترامیم بھی عدالت میں چیلنج کریں گے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی نیب ترمیم کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔
یہ بھی پڑھیے
پی ٹی آئی کا اسلام آباد میں بڑے جلسے کا فیصلہ، حکومت کو 30 دن کا الٹی میٹم دے دیا
جسٹس منصور علی شاہ نے اس موقع پر کہا کہ قانون پارلیمنٹ سے منظور کیا ہے اس کا احترام بھی ضروری ہے، ترامیم کسی آئینی شق سے متاثر نظر نہیں آرہیں، آپ کے مطابق نیب ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچے کے ایک حصے یعنی احتساب کے خلاف ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد ہی احتساب پر ہوتی ہے، انتخابات بھی ایک طرح سے احتساب کا عمل ہی ہوتا ہے۔
اس پروکیل عمران خان،خواجہ حارث نے کہا کہ کوئی بھی آئینی ترمیم آئین کی بنیاد کو تبدیل نہیں کر سکتی۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ یہ نہیں دیکھ رہے کہ کس نے نیب ترامیم کیں، صرف بنیادی حقوق کی خلاف ورزی دیکھیں گے، اگر عوام کے پیسے پر کرپشن کی گئی ہےتو یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی میں آتا ہے، آئین میں طے شدہ ضابطوں کے تحت قوانین کا جائزہ لے سکتے ہیں۔موجودہ حکومت نے اپنے گناہ معاف کرالیے، اگلی آئے گی وہ اپنےکرالے گی، اس کیس میں اگر بنیادی حقوق متاثر ہونے کا معاملہ ہے تو سنیں گے ورنہ عدالت کا دائرہ کار نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ نیب قانون غلط ہے تواسمبلی میں بل کیوں نہیں لاتے؟ ترامیم کسی آئینی شق سے متاثر نظر نہیں آرہیں، قانون پارلیمنٹ نے منظور کیا ہے اس کا احترام بھی ضروری ہے، یہ بھی بتائیں کہ نیب نے ملکی معیشت میں کیا حصہ ڈالا؟
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان کا دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے تیسرے چیمبر میں تبدیل کرنےکی ترغیب دی جارہی ہے۔ نیب کے کئی کیسز لڑے ہیں، معزز ججز کو معلوم ہے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں کیا ہوتا ہے، آج سرمایہ کار سرمایہ کاری نہیں کر رہے معیشت مشکل میں ہے۔
درخواست کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا گزشتہ روز نیب قانون میں کوئی اور ترمیم کی گئی ہے؟۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ نئی ترامیم ابھی تک قانون کا حصہ نہیں بنیں، عدالت حکم دے تو جواب ضرور جمع کرائیں گے، نئی ترامیم جب تک قانون نہ بن جائیں اس پر کوئی موقف نہیں دے سکتے۔
وفاق کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ صدر مملکت نے نیب ترامیم کی منظوری دینے کے بجائے اپنی ترامیم کی تجویز کا خط وزیراعظم کو لکھا، صدر مملکت کا وزیراعظم کو لکھا گیا خفیہ خط بھی عمران خان کی درخواست کا حصہ ہے، عمران خان سے پوچھا جائے کہ پہلے ان نیب ترامیم کےحق میں کیوں تھے اور اب مخالفت کیوں کررہے ہیں؟صدر کا وزیراعظم کو لکھا گیا خفیہ خط عمران خان کی درخواست کا حصہ کیسے بنا۔؟
وکیل وفاقی حکومت مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان کی یہ سیاسی حکمت عملی ہے تو اس کے لیے عدالت کے بجائے کسی اور فورم کا استعمال کریں۔ صدر مملکت نے اگر نئی ترمیم پر دستخط نہ کیے تو معاملہ مشترکہ اجلاس میں جائے گا، مشترکہ اجلاس میں نیب قانون میں حالیہ ترمیم منظور ہوتی ہے یا نہیں، یہ کہنا قبل از وقت ہے۔
درخواست گزار عمران خان کےوکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ وہ وہ نیب قوانین میں ہونے والی نئی آئینی ترمیم کو بھی عدالت میں چیلنج کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ نیب اہم فریق ہے اس کی نمائندگی بھی ہونی چاہیے، نئی ترامیم کا مسودہ کل عدالت میں جمع کروادیا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ ترامیم کے بعد آمدن سے زائد اثاثوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے تمام مقدمات ختم ہو جائیں گے۔
درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میں نیب کے وکیل سے متعلق استفسار کیا اور کہا کہ نیب ان ترامیم پر تحریری جواب جمع کرائے۔جس پر نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ نیب اس کیس میں اٹارنی جنرل کے دلائل کو اپنائے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ کا ریمارکس دیتے ہوئے کہنا تھا کہ کوئی منصوبہ ناکام ہونے پر مجاز افسران گرفتار ہوجاتے تھے، گرفتاریاں ہوتی رہیں تو کونسا افسر ملک کے لیے کوئی فیصلہ کرے گا، نیب ترامیم کے بعد فیصلہ سازی پر گرفتاری نہیں ہو سکتی، نیب ترامیم سے کوئی جرم بھی ختم نہیں ہوا، قانون کا ڈھانچہ عدالت کے بجائے اسمبلی میں زیر بحث آنا چاہیے۔
پرخواجہ حارث کا کہنا تھا کہ گڈ گورننس کے لیے احتساب ضروری ہے، احتساب کے بغیر گڈ گورننس کا تصور نہیں ہو سکتا، ترامیم کے بعد تمام مقدمات عدالتوں سے خارج ہو جائیں گے۔
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر قومی احتساب بیورو سے جواب طلب کر لیا، اور درخواست پر سماعت 19 اگست تک ملتوی کردی۔