الیکشن کمیشن نے آصف زرداری کی توشہ خانہ سے 3 مہنگی گاڑیاں لینے کا نوٹس کیوں نہیں لیا ؟

سابق صدرآصف زرداری نے 2 بی ایم ڈبلیو، ایک لیکسزکارخلاف ضوابط حاصل کیں جبکہ نوازشریف نے بنا کسی عوامی عہدے پر فائز ہوئے 2008 میں ایک گاڑی توشہ خانہ سے لے گئے جسکی رقم بھی جعلی اکاؤنٹ سے جمع کروائی گئی

تحریک انصاف کے سربراہ سابق وزیراعظم عمران خان توشہ خانہ سے  بیرون ملک کی طرف سے آئے تحفے خرید نے پر حکومت کی شدید تنقید کی زد میں ہیں مگرعمران خان پہلے وزیراعظم نہیں جنہوں نے سرکاری توشہ خانے سے تحائف خریدے ہوں۔ سابق صدرآصف زرداری اور سابق وزرائے اعظم  یوسف رضا گیلانی اور نوازشریف نے توشہ خانہ سے من پسند تحائف  خلاف ضابطہ حاصل کرچکے ہیں ۔

پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدرآصف علی زرداری نے توشہ خانہ سے متحدہ عرب امارات اور لیبیا سے تحفے میں ملنے والی مہنگی ترین   2 بی ایم ڈبلیو اورایک لیکسز کار خلاف ضوابط حاصل کیں تاہم الیکشن کمیشن نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کرے رکھی اور کوئی نوٹس نہیں لیا  گیا ۔

یہ بھی پڑھیے

توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے وکیل دستاویزات فراہم کریں، الیکشن کمیشن

سابق صدر نے خلاف قانون توشہ خانہ سے تین مہنگی ترین گاڑیاں خریدی جبکہ اس کی قیمت بھی جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے جمع کروائی گئیں۔  جس کا کیس  قومی احتساب بیورو میں زیر سماعت ہے تاہم الیکشن کمیشن اس معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے ۔

نیب میں زیر سماعت کیس کے مطابق سابق آصف زرداری نے توشہ خانہ کی مہنگی ترین گاڑیاں 15 فیصد قیمت جمع کروا کے اپنے گھر لے گئے جبکہ  گاڑیوں کی درآمدی ڈیوٹی بھی جعلی اکاؤنٹس سے کی گئیں۔

گاڑیاں اسلام آباد ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفس نے کیبنٹ ڈویژن کے سرٹیفکیٹ نمبر 9/2/2009/TK مورخہ 06-06-2009 (سرٹیفکیٹ کی کاپی کے لیے Ref. ANNEX-41) کے ذریعے رجسٹر کی گئیں جبکہ بغیر کسی گڈز ڈیکلریشن (GD) / دستاویزات درآمد کریں۔

نیب کے مطابق ان نئے ماڈلز کی تین گاڑیوں کی اصل قیمت چھ کروڑ تھی تاہم ابتدائی طور پر صرف نوے لاکھ کی ادئیگی کی گئی جبکہ ایکسائز آفس کے اعتراض پر مزید رقم جمع کروائی گئی اور یوں تینوں گاڑیاں دو کروڑ کی ادائیگی پر آصف زرداری کے نام کر دی گئیں۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بھی توشہ خانہ سے من پسند تحائف حاصل کرنے میں کوئی سستی نہیں دکھائی  بلکہ 2008 میں  بغیر درخواست دیئے جبکہ وہ کسی عوامی عہدے پر فائز بھی نہیں تھے  گاڑی لی اور ان کی رقم بھی عبدالغنی مجید  نے جعلی اکاؤنٹ سے کی ۔

نیب کو دیئے اپنا بیان میں نواز شریف کا موقف تھا کہ انہیں 1992 ماڈل گاڑی ان کے دوسرے دور حکومت میں ایک دوست ملک سے تحفے میں دی گئی تھی جو کہ سال 1997 میں قومی توشہ خانہ میں جمع کروا دی گئی تھی۔ بعد میں یہ گاڑی 2008 میں انہیں بغیر درخواست دیے تحفے میں دی گئی۔

یہ بھی پڑھیے

توشہ خانہ اور ممنوعہ فنڈنگ کا معاملہ ، حکومت کا عمران خان کے کاغذات نامزدگی چیلنج کرنے کا فیصلہ

 ذرائع کے مطابق نواز شریف کو ملنے والی مرسیڈیز گاڑی کی اصل قیمت 42 لاکھ تھی جس کا 15 فیصد یعنی چھ لاکھ ادا کرکے گاڑی انہیں پیپلز پارٹی حکومت کی طرف سے تحفے میں دی گئی۔

توشہ خانہ  سے خریدے جانے والے تحائف کی قیمتوں کا تخمینہ ایف بی آر اور پرائیویٹ ماہرین لگاتے ہیں تاہم دسمبر 2018 کے ضابطہ کار کے تحت تحفے میں ملنے والی گاڑیاں اور نوادرات خریدے نہیں جا سکتے، بلکہ گاڑیاں سرکاری استعمال میں آجاتی ہیں ۔

توشہ خانہ کیا ہوتا ہے؟

مختلف ممالک صدور، وزرائے اعظم ، وزراء یا بادشاہوں کے درمیان تحائف کے تبادلے کی روایت صدیوں پرانی ہے جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں سفارتی روایات کے طور پر زندہ ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں جمع کروائی گئی تفصیل کے مطابق اس وقت توشہ خانہ میں 1200 روپے کے پیالوں سے لے کر ڈیڑھ کروڑ روپے تک کی گھڑیوں سمیت متعدد اشیا موجود ہیں جن میں کلاشنکوف، پینٹنگز، گھڑیاں، پین اور سٹیشنری کی اشیا شامل ہیں۔

صدر مملکت، وزیراعظم،چیئرمین سینٹ، سپیکر قومی اسمبلی اور سرکاری وفد کے ہمراہ جانے والے عام افراد کو بیرون ملک دورے کے دوران ملنے والے تحائف توشہ خانہ کے ضابطہ کار 2018 کے تحت کابینہ ڈویژن کے نوٹس میں لانا اور یہاں جمع کروانا ضروری ہیں۔

سرکاری حکام کے مطابق جو تحائف صدر، وزیراعظم یا حکام نہیں خریدتے ان کو ایک مقررہ مدت کے بعد نیلامی میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔

متعلقہ تحاریر