عالمی ماہرین اور ذرائع ابلاغ نے عمران خان کے سویلین بالادستی کے مطالبے کی حمایت کردی
پاکستان میں سیاسی پیش رفت پر گہری نظر رکھنے والے عالمی ذرائع ابلاغ اور ماہر تجزیہ کاروں نے عمران خان کے سویلین سپرمیسی کے مطالبے کی حمایت میں آواز بلند کی ہے۔
عالمی ماہرین اور ذرائع ابلاغ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے پاکستان میں سویلین بالادستی کے مطالبے کی حمایت کردی ہے۔
سویلین بالادستی کی تحریک اور اپنے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج ہونے کے بعد عمران خان عالمی سطح پر پاکستانی سیاست کا مرکز بن گئے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی پیش رفت پر گہری نظر رکھنے والے عالمی ذرائع ابلاغ پر ایک نظر یہ ہے:
واشنگٹن پوسٹ
پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے ، اقتدار سے برطرفی اور پاکستان کی موجودہ حکومت جاری کشمکش کے بعد یہ تازہ ترین پیش رفت ہے۔
ان کے خلاف مقدمہ اتوار کے روز بنایا جبکہ اس سے ایک روز قبل عمران خان نے ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اپنے چیف آف سٹاف کی گرفتاری پر اعلیٰ پولیس حکام اور ایک جج کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
واشنگٹن پوسٹ کا لکھنا ہے کہ پولیس نے اپنی چارج شیٹ میں رپورٹ کیا تھا کہ عمران خان نے اپنی تقریر کے دوران پولیس حکام کو دھمکیاں دی تھیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ عمران خان نے جس طرح سے اپنی تقریر اور دھمکیاں دی اس سے پولیس، عدلیہ اور عام لوگوں میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے اور ان کے اس طرز عمل سے ملک میں انکاری پھیل سکتی ہے۔
اپریل کے شروع میں عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کیا گیا تھا جس کے بعد سے عمران خان ملک کے طول و عرض میں حکومت کے خلاف ریلیاں نکال رہے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کا لکھنا ہے کہ سابق کرکٹ اسٹار نے اپنی مضبوط سیاسی ساکھ کو برقرار رکھتے ہوئے بلدیاتی انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اس کے برعکس عمران خان کی جگہ لینے والے وزیر اعظم شہباز شریف معاشی بحران سے نمٹنے میں بہت کم کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ جس کی وجہ سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔
اتوار اور پیر کی درمیانی رات عمران خان کی گرفتار کرنے کی خبروں کے چند گھنٹوں کے اندر اندر ان کے سینکڑوں حامی ان کے رہائس گاہ پر پہنچ گئی ، بعدازاں عدالت نے ان کی جمعرات تک راہداری ضمانت منظور کرلی ، عمران خان نے اپنے مداحوں کا شکریہ ادا کیا۔
عمران خان اور پاکستانی حکومت کے درمیان تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل نے اس ماہ کے شروع میں ایک نجی ٹی وی چینل پر فوج سے متعلق متنازع بیان دیا۔ جس کے بعد شہباز گل کو گرفتار کرلیا۔ عمران خان نے الزام لگایا کہ جیل میں شہباز گل کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
عمران خان اور خان اور ان کی پارٹی کو میڈیا پر جزوی پابندی کا بھی سامنا ہے۔ حکام نے خان کی تقاریر کی براہ راست نشریات پر پابندی عائد کر دی ہے، اور جس نیوز چینل پر شہباز گِل نے بیان دیا تھا اسے زبردستی بند کر دیا گیا تھا۔
عمران خان 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد سے قانونی طور پر ووٹ کے ذریعے ہٹائے جانے والے پہلے وزیراعظم ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے کہ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ ان کی برطرفی کے پیچھے امریکی ہاتھ تھا، لیکن وہ دعوے کی سچائی کے لیے کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکے۔
واشنگٹن ٹائمز
اسلام آباد پولیس نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے۔
واشنگٹن ٹائمز کے مطابق پاکستان حکام کا کہنا ہے کہ معزول وزیراعظم عمران خان اقتدار میں واپس آنے کے لیے ملک بھر جلسے جلوس نکال رہے ہیں ، اور وہ اپنی تقریروں کے ذریعے منافرت پھیلا رہے ہیں۔
ہفتے کے روز اسلام آباد میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا ہم آئی جی اسلام آباد ، ڈی آئی جی اور خاتون جج زیبا کو بھی نہیں چھوڑیں گے ان کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمات درج کرائیں گے۔ جج زیبا نے شہباز گل کا پولیس ریمانڈ دیا ، جس کے بعد ان پر تشدد کیا گیا۔
پیر کے تحریک انصاف کے سینکڑوں کارکنان عمران خان سے اظہار یکجہتی کے لیے ان کے گھر باہر پہنچ گئے جب پولیس نے عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے ان کے گھر کا گھیراؤ کیا۔ کارکنان کا کہنا تھا اگر عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو اسلام آباد کی طرف مارچ کیا جائے گا اور حکمرانوں کی اینٹ سےاینٹ بجا دی جائے گی۔
عمران خان کو ملکی عوام کو بغاوت پر اکسانے اور پولیس افسران اور جج کو دھمکانے کے الزامات کے نتیجے میں کئی سال کی سزا کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ایڈوکیسی گروپ فریڈم ہاؤس
واشنگٹن میں قائم ایڈوکیسی گروپ فریڈم ہاؤس کے مطابق پاکستانی عدلیہ کی فوج، سویلین حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اقتدار کی جنگ میں فریق بننے کی ایک تاریخ ہے۔
ایڈوکیسی گروپ فریڈم ہاؤس کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف ممکنہ طور پر منگل کو ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں خان کے خلاف الزامات پر بات کریں گے۔
عمران خان 2018 میں اقتدار میں آئے تھے، پاکستان میں خاندانی حکمرانی کے بت کو پاش پاش کیا تھا، تاہم ان کے مخالفین کا دعویٰ ہے کہ وہ طاقتور فوج کی مدد سے اقتدار میں آئے تھے ، جس نے ملک کی 75 سالہ تاریخ میں سے 30 سال ملک پر حکمرانی کی ہے۔
اس سال کے شروع میں عمران خان کی اپوزیشن نے ملک میں افراط زر ، سیاسی عدم استحکام ، روپے کی گرتی ہوئی قدر ، افراتفری کے الزامات کے تحت خان کو اقتدار سے الگ کردیا تھا۔ اپریل کے شروع میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے عمران خان کو معزول کردیا گیا۔
ایڈوکیسی گروپ فریڈم ہاؤس لکھتا ہے کہ عمران خان نے ثبوت فراہم کیے بغیر الزام لگایا کہ فوج نے انہیں بے دخل کرنے کی امریکی سازش میں حصہ لیا۔ تاہم واشنگٹن، پاکستانی فوج اور شریف حکومت سبھی نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
تاہم اب عمران خان شہباز حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش میں بڑے پیمانے پر ریلیاں نکال رہے ہیں۔
پیر کی رات راولپنڈی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اپنے خطاب کے دوران عمران خان الزام عائد کیا کہ ان کی پارٹی کے خلاف حالیہ کریک ڈاؤن کے پیچھے "نیوٹرلز” کا ہاتھ ہے۔ وہ ماضی میں بھی فوج کے لیے "نیوٹرلز” کا جملہ استعمال کر چکے ہیں۔
عمران خان کی پارٹی بڑے پیمانے پر احتجاجی ریلیاں نکال رہی ہے، پاکستانی حکومت اور سیکیورٹی فورسز کو خدشہ ہے کہ سابق کرکٹ اسٹار کی مقبولیت اب بھی لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر نکال سکتی ہے۔
آئی ایم ایف جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک پر مزید دباؤ ڈال سکتا ہے کیونکہ موجودہ حکومت اقتصادی بحران سے نکلنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے 7 بلین ڈالر کا بیل آؤٹ حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ دوسری جانب یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کی وجہ سے خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔
انٹرنیٹ تک رسائی کے وکالت کرنے والے گروپ نیٹ بلاکس نے لکھا ہے کہ "پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے عمران خان کی براہ راست تقریر پر پابندی کے بعد یوٹیوب تک رسائی کو بین کردیا ہے۔
نیٹ بلاکس کے مطابق عمران خان کی یوٹیوب پر لائیو اسٹریم کرنے کی کوشش بھی اس وقت ناکام ہوگئی جب گوگل کے زیر ملکیت آٹھ پاکستانی انٹرنیٹ سروس فراہم کنندگان کو ایک مربوط اقدام سے آف لائن کردیا گیا ، لیکن جیسے ہی عمران خان کی تقریر ختم ہوئی یہ سائٹس دوبارہ فعال کر دی گئیں۔
آر ٹی ڈاٹ کام
پاکستان کے معزول سابق وزیر اعظم عمران خان پر ہفتہ کی رات اسلام آباد میں ایک ریلی کے دوران ایک خاتون جج اور دو سینئر پولیس اہلکاروں کو مبینہ طور پر دھمکیاں دینے کے الزام میں ملک کے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت الزام عائد کیا گیا ہے۔
آر ٹی ڈاٹ کام نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ "ایک گھر سے بنائی گئی ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ اتوار کو رات دیر سے پولیس کی بھاری نفری نے عمران خان کے گھر کو گھیرے میں لے لیا تھا۔”
آر ٹی ڈاٹ کام نے لکھا کہ پیمرا نے عمران خان کی تقریر پر پابندی سے متعلق اپنے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ "عمران خان ریاستی اداروں اور افسران کے خلاف بے بنیاد الزامات لگا کر ریاستی اداروں کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں اور نفرت انگیز تقریریں پھیلا رہے ہیں۔
ٹائم
عمران خان کی حکومت کو 9 اپریل کو چلتا کردیا گیا تھا ، مگر انہوں نے اپنی برطرفی سے پیشتر یہ الزامات لگانا شروع کردیے تھے کہ ان کی حکومت کو امریکی مدد سے ہٹایا جارہا ہے۔
ٹائم لکھتا ہے کہ عمران خان اپنی حکومت کی برطرفی کا الزام فوج پر بھی لگاتے ہیں۔
ہفتے کے روز اسلام آباد میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے اسلام آباد پولیس کے دو اعلیٰ افسران اور ایک لیڈی جج کو دھمکیاں کیا جس کے بعد ان پر انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کردیا گیا۔
الجزیرہ
الجزیرہ لکھتا ہے کہ "پاکستان کے سیاسی درجہ حرارت میں اس وقت اور اضافہ ہوا گیا جب سابق وزیر اعظم عمران خان پر ایک عوامی ریلی کے دوران الزام تراشی کرنے پر پولیس نے انسداد دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیا تھا۔”
اس لمحے کی وجہ کیا ہے؟
الجزیرہ لکھتا ہے کہ "عمران خان کی حکومت کو اپریل کے شروع میں گرا دیا گیا تھا ، جس کے بعد چیئرمین تحریک انصاف نے عوام تک رسائی کے لیے بہت بڑی کوشش کی۔ انہوں نے جلسوں میں خطاب کے دوران موجودہ حکومت ، ریاستی اداروں، پولیس اور فوج کے خلاف کھل کر بیانات دیئے۔ عمران خان فوج کے لیے "نیوٹرلز” کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
اتوار کی رات راولپنڈی میں تازہ ترین تقریر کے دوران عمران خان نے ہزاروں لوگوں سے خطاب کیا ، وہ خطاب کے دوران بار بار "نیوٹرلز” کا نام لے کر پکارتے رہے۔
الجزیرہ نے لکھا ہے کہ موجودہ سیاسی افراتفری کے دوران عمران خان 220 ملین لوگوں کے ملک کو اپنے سحر میں مبتلا کرچکے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاست میں عمران خان کو کامیابی فوج نے دلوائی تھی۔
الجزیرہ کے قانونی ماہرین اور معروف آئینی ماہر ابوذر سلمان نیازی نے کہا ہے کہ خان کے خلاف ایف آئی آر کا کوئی جواز نہیں۔
الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا ایڈووکیسی ڈائریکٹر جان سیفٹن نے کہا کہ پاکستان کا دہشت گردی کا قانون حد سے زیادہ وسیع ہے، "مبہم زبان پر مشتمل ہے”، اور ماضی میں "سیاسی تقریر پر پابندی” کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل اور قانونی تجزیہ کار اسد رحیم خان نے اتفاق کیا کہ الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے لیکن انہوں نے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ عمران خان کو اپنا بیان دیتے ہوئے "غیر ذمہ دارانہ بیان ” نہیں دینے چاہئیں۔
فوجداری قانون کے ماہر حیدر رسول کے مطابق سابق وزیراعظم کو جمعرات کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہونا چاہیے۔
ماہر قانون حیدر رسول نے کہا کہ عمران خان کو باضابطہ طور پر اس صورت میں گرفتار کیا جا سکتا ہے اگر عدالت نے عمران خان کی ضمانت مسترد کردی۔ لیکن اس کا امکان بہت کم تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ سیاسی طور پر اس طرح کے کسی بھی اقدام کے نتیجے میں آگ مزید بھڑک سکتی ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے خان کی حکومت کے خاتمے پر اپنی ناراضگی اظہار کرچکی ہے۔
نیویارک ٹائمز
سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھیوں کو گرفتار کیا جارہا ہے ، میڈیا آؤٹ لیٹس اور عوامی شخصیات جو عمران خان کی ہمدرد سمجھی جاتی ہیں ان کو ڈرایا دھمکایا جارہا ہے ۔ جبکہ عمران خان کو خود انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمے کا سامنا ہے اور ان کی گرفتاری کا امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔
کئی ہفتوں سے شہباز حکومت ، اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان سیاسی کشمکش عروج پر ہے۔ سابق کرکٹ اسٹار سے مقبول سیاست دان بنے والے عمران خان کو حکومت سے نکال دیا گیا ، اس ڈرامے نے پاکستانی سیاست کی خطرناک حالت کا پردہ فاش کیا ہے-
عمران خان کو اپنی سیاسی ساکھ بنانے میں کئی دہائیاں لگیں ، عمران خان ملک کے چند اشرافیہ کے خلاف میدان سیاست میں اترے اور سیاست کے میدان کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا ۔ کیونکہ اس سے قبل صرف چند اشرافیہ ہی اس ملک کی سیاست سے کھیل رہے تھے۔ اور کوئی ان کے سامنے آنے کی ہمت نہیں کرتا تھا ، مگر اب عمران خان نے خاندانی سیاست کا خاتمہ کردیا ہے۔ اور سیاسی اشرافیہ مایوسی کا شکار ہے۔
فوج کی مداخلت سے اقتدار سے ہٹائے جانے والی کرشماتی شخصیت اور سیاستدان خود کو اور اپنی پارٹی کو پاکستانی سیاست کے مرکز میں رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ انہوں نے سیاسی نظام کے بارے میں عوام کی گہری مایوسی کو دور کرنے اور اس قسم کی عوامی طاقت کو چلانے کی صلاحیت کا مظاہرہ ہے جو کبھی پاکستانی مذہبی رہنماؤں کے ہاتھ میں چلا جاتا تھا۔
75 سال قبل دنیا کے نقشے پر ابھرنا والا پاکستان ، اور جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک سیاسی اتار چڑھاؤ اور فوجی بغاوتوں سے دوچار رہا ہے۔ ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ انتخابی سیاست اپنا خفیہ ہاتھ استعمال کرتی رہی ہے۔ جسے بھی فوج کی حمایت حاصل ہوتی ہے وہ اپنے حریفوں کو پیچھے دھکیل دیتا ہے۔
نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ "اسی سیاسی اسکرپٹ کی بازگشت میں، اتوار کو عمران خان پر پاکستان کے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دارالحکومت اسلام آباد میں ہزاروں حامیوں سے خطاب کرنے کے بعد مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ عمران خان نے ہفتے کے روز اپنے خطاب میں اعلیٰ پولیس حکام اور ایک لیڈ جج کو دھمکایا تھا۔
نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ "تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اپریل میں ان کی حکومت کو گرانے کی سازش کی تھی۔ جس کے بعد ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔”
بروکنگز انسٹی ٹیوشن کی ایک فیلو مدیحہ افضل نے کا کہنا ہے کہ "موجودہ صورتحال جو پچھلی صورتحال سے مختلف ہے وہ یہ کہ اسٹریٹ پاور عمران خان کے ساتھ ہے۔ اسٹریٹ پاور پاکستان میں فرق ڈالتی ہے یہاں تک کہ جب یہ انتخابی ووٹوں میں تبدیل نہ ہو۔”
بی بی سی ورلڈ
@fawadchaudhry of @ImranKhanPTI @PTIofficial party spoke to @BenBrownBBC on the developing situation of #ImranKhanArrest warrant in #Pakistan and what could be the possible outcomes @BBCNews editor @sgfmann pic.twitter.com/NWHyzUZ8Gv
— Emb Hashmi (@EmbJournalist) August 22, 2022
BBC world reporting Imran khan @PTIofficial pic.twitter.com/rGv2G3NbtH
— Z A H I D (@ZahidNabiGill) August 22, 2022