کیا عمران خان کو اپنے جواب میں معافی کا لفظ نہ لکھنا مہنگا پڑسکتا ہے؟

قانونی ماہرین کی عام رائے یہی ہے کہ سابق وزیراعظم کو غیرمشروط طور پر معافی مانگ لینی چاہیے ورنہ ان کا سیاسی مستقبل خطرے میں پڑسکتاہے۔

سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے نوٹس پر اپنا جواب جمع کرادیا ہے ، تاہم انہوں نے معافی مانگنے کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ کہا ہے کہ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔ قانونی ماہرین کی اس حوالے سے مختلف آرا ہے جبکہ زیادہ تر خیال ہے کہ معافی نہ مانگنے پر عمران پر توہین عدالت لگ سکتی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں جج زیبا چوہدری سے متعلق پی ٹی آئی کے سربراہ نے اپنے ادا کیے الفاظ واپس لینے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سیاسی استحکام تک سرمایہ کاری نہیں آسکتی، عمران خان کا سیمینار سے خطاب

پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ کا جیل میں بدترین تشدد اور گلہ دبائے جانے کا دعویٰ

آج اسلام آباد ہائی میں چیئرمین تحریک انصاف کے حوالے سے ایک انتہائی اہم کیس کی سماعت ہونی ہے ، عمران خان کا سیاسی مستقبل اس پر انحصار کررہا ہے۔

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو جج زیبا چوہدری کو دھمکانے کے الزام میں توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا ہے۔

عمران خان کے اسلام آباد ہائی کورٹ کو لکھے گئے خط کا ترجمہ

آج عمران خان کو ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر اپنے بیان کی وضاحت کرنی ہے۔ تاہم اس سے پہلے ہیں عمران خان کا تحریری جواب سامنے آگیا ہے۔

Copy of Imran Khan's letter

Copy of Imran Khan's letter

اپنے تحریری جواب میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے لکھا ہے کہ "اگر خاتون جج سے متعلق ان کے الفاظ نامناسب تھے تو وہ واپس لینے کے لیے ہیں۔’

انہوں نے لکھا ہے کہ "میں (عمران خان) نے کوئی توہین عدالت نہیں کی ہے ، ڈپٹی رجسٹرار نے 20 اگست کے جلسے مخصوص الفاظ کا چناؤ کیا۔ ان الفاظ کو سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر چلایا گیا تاکہ ایسا تاثر ملے کہ میں (عمران خان) قانون کو ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔”

انہوں نے لکھا ہے کہ "اس کے برعکس یہ ہر شہری کا قانونی حق ہے کہ وہ قانون کے مطابق کسی جج یا عوامی عہدیدار کے کنڈکٹ یا مس کنڈکٹ پر بات کرے۔”

عمران خان نے مزید لکھا ہے کہ "میری (عمران خان) کی طرف سے جس ایکشن کا حوالہ دیا تھا اس کا مقصد قانون اور آئین کے مطابق ایکشن لینا تھا۔”

چیئرمین پی ٹی آئی نے لکھا ہے کہ "میں (عمران خان) نے اپنی تقریر میں ‘آپ سب شرم کریں’ جو الفاظ استعمال کیے تھے وہ کسی اور پیرائے اور پس منظر میں کیے تھے۔ جسے افسوس کے رجسٹرار اور ہائی کورٹ نے توہین عدالت کے طور پر دیکھا۔”

سربراہ تحریک انصاف نے لکھا ہے کہ "یہ الفاظ اچانک سے اور بغیر کسی پہلے سے طے شدہ مقصد یا نیت کے ادا کیے تھے ، تاکہ صرف اس بات پر زور دیا جاسکے کہ حکام کی جانب سے شہباز گل کے معاملے پر قانون کی پیرونی کرنی چاہیے۔”

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے جواب کے مطابق "میں (عمران خان) نے ‘آپ سب شرم کریں’ کے جو الفاظ ادا کیے وہ جوش خطابت میں ادا کیے۔ جس میں کوئی بری نیت نہیں تھی ، اور جن کا استعمال مخصوص انداز میں یا خصوصی طور پر ماتحت جج کے لیے نہیں کیا گیا۔ اورجہاں تک ماتحت جج کا تعلق ہے اس میں صرف قانون کے تحت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔”

عمران خان کے جواب کے مطابق "شہباز گل جو غیرمعمولی طور پر جسمانی ریمانڈ وفاقی حکومت کو دیا گیا اور اس کے ساتھ جو جنسی زیادتی ہوئی ، اور ٹارچر کی جو خبریں آئیں وہ ہر شخص کو ہلا سکتی ہیں۔”

قانون ماہرین اور سابق ججز کی رائے

اس کیس کے حوالے سے متعدد سابق ججز اور نامور وکلاء کا موقف ہے کہ عمران خان کا سیاسی مستقبل اس کیس کی وجہ سے خطرے میں ہے۔

قانونی ماہرین کی عام رائے یہی ہے کہ سابق وزیراعظم کو غیرمشروط طور پر معافی مانگ لینی چاہیے۔

ماہرین قانون کا کہنا ہے پی ٹی آئی والے یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان اس وقت مقبولیت کی بلندی پر ہیں اس لیے عدالت ان کے خلاف فیصلہ نہیں دے گی ، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ عدالتوں کو کسی کی مقبولیت اور بےتوقیری سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، عدالت نے قانونی راستہ اختیار کرنا ہوتا ہے ، اور اس کیس میں بہت واضح ہے کہ اگر عمران خان نے معافی مانگنے سے گریز کیا اور اپنی مقبولیت پر نظر رکھی تو ان کے لیے یہ فیصلہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

متعلقہ تحاریر