اسلام آباد ہائی کورٹ کا توہین عدالت کیس میں عمران خان کو ایک اور موقع

چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ ماتحت عدلیہ کے بارے میں عمران خان کے بیان پر دکھ ہوا۔

توہین عدالت کیس ، اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو جواب دوبارہ جمع کرانے کے لیے 7 روز کا وقت دے دیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے عمران خان توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیے

ٹیلی تھون کی بھرپور کامیابی پر چوہدری پرویز الٰہی کی عمران خان کو مبارکباد

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حامد خان صاحب آپ عمران خان کے وکیل ہیں ، ہمیں بہت خوشی ہے کہ اس اہم معاملے میں آپ یہاں ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا مجھے عمران خان کی جانب سے ایسے ریمارکس کی بالکل بھی توقع نہیں تھی۔

حامد خان کو متوجہ کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا آپ کے موکل کا ماتحت عدلیہ کے بارے میں بیان پڑھ کر دکھ ہوا ، ماتحت عدلیہ ایلیٹ کی عدلیہ نہیں ہے ، اسے اہمیت دینے کی ضرورت ہے ، 70 سالوں میں عام آدمی کو ہائی کورٹ میں یا سپریم کورٹ میں رسائی نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کم از کم جن حالات میں وہ رہ رہے ہیں وہ بھی دیکھنا چاہیے، میں توقع کررہا تھا کہ احساس ہوگا کہ غلطی ہوگئی ، جس طرح گزرا وقت واپس نہیں آتا ، زبان سے کہی بات لوٹ نہیں جاسکتی ، جن مشکل حالات میں ضلع کچہری میں ججز کام کررہے ہیں ، وہ سب کے سامنے ہیں، میں توقع کررہا تھا کہ اس پر شرمندگی اور افسوس کیا جائے گا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا ایک سیاسی جماعت کے لیڈر کے فالورز ہوتے ہیں کچھ کہتے ہوئے سوچنا چاہیے۔

اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ماتحت عدلیہ کی عزت بحال کرنا ہو گی ، عمران خان کے جواب سے مجھے تسلی نہیں ہوئی ، عمران خان کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ہمارے کہنے پر جوڈیشل کمپلیکس بنوایا ۔ عمران خان کو چاہیے تھا کہ وہ اس عدلیہ کے پاس جاتے اور کہتے کہ انہیں ہمیں آپ پر اعتماد ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عمران خان نے اپنے بیان میں ایک خاتون جج کو دھمکی دی ، تحریری جواب میں ہمیں جو امید نظر آرہی تھی وہ نہیں ملی ، کل تحریری جواب میں ان کی جانب سے پیشکش کی گئی تھی کہ وہ (عمران خان) اپنے الفاظ واپس لیتے ہیں ، آج جو تحریری بیان جمع کرایا گیا اس میں کہا گیا کہ عمران خان ججز کے احساسات کو مجروع کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔

عدالت عمران خان کی تقریر کا سیاق و سباق کے ساتھ جائزہ لے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے جو بھی لکھ کر دینا ہے سوچ سمجھ کر لکھیں، آپ اس معاملے کی سنگینی کا بھی اندازہ لگائیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیئے کہ توہین عدالت کی کارروائی آج ختم ہو سکتی تھی مگر اس جواب کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا، آپ بتائیں کہ کیا اس کیس میں کسی کو عدالتی معاون بھی مقرر کریں۔

چیف جسٹس نے کہا اس ملک میں تبدیلی تب آئے گی جب تمام ادارے اپنا کام آئین کے مطابق کریں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا آپ کو معلوم ہے کہ مطیع اللہ جان یہاں کھڑے ہیں اور ان کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ آپ ہمیں الزام دیتے ہیں کہ پاکستان کی عدلیہ 130 ویں نمبر پر ہے، ہم نے ایک کیس میں فواد چودھری کو بتایا کہ وہ نمبر عدلیہ کا نہیں، ایگزیکٹو کا تھا۔

عدالت نے منیر اے ملک ، مخدوم علی خان اور پاکستان بار کونسل کو عدالتی معاون مقرر کردیا۔

وفاق کے نمائندے کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا آپ بھی بغاوت اور غداری کے کیسز پر نظرثانی کریں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ عمران خان کے جواب کی پیشگی نقول عدالتی معاونین کو فراہم کرنے کا کہا جائے۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون کے بولنے کی کوشش پر اظہار برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ عدالت اور توہین عدالت کے مرتکب کے درمیان ہے، آپ بیٹھ جائیں۔چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس عدالت کے معاون ہیں خود کو محض کسی کا وکیل نہ سمجھیں۔

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی عدالت میں پیشی کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے اور صرف خصوصی پاس رکھنے والے صحافیوں کو ہی کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت دی گئی۔پولیس کی جانب سے عدالت کے احاطہ میں داخلے کی اجازت نہ دیے جانے پر کئی صحافیوں نے احتجاج کیا۔

متعلقہ تحاریر