پلی بارگین اور 50 کروڑ کی حد مقرر کرنے سے ملزمان کو فائدہ ہوا، سپریم کورٹ

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ معاشی پالیسیوں کو دیکھنا سپریم کورٹ کا کام نہیں۔ معیشت پالیسی کا معاملہ ہوتا ہے جس میں عدالت مداخلت نہیں کر سکتی۔

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئےنیب سے گزشتہ 23 سال کے ہائی پروفائل کرپشن کیسز کا ریکارڈ طلب کرلیا۔چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ پاکستان میں جائیداد اور دولت بنانے پر کوئی کنٹرول نہیں، نہ ہی احتساب ہے۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیے

پی ٹی آئی نے آصف زرداری کے خلاف نااہلی ریفرنس دائر کر دیا

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ نیب ترامیم کے ذریعے کس کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے؟ فرض کریں پارلیمنٹ نے ایک حد مقرر کردی اتنی کرپشن ہوگی تو نیب دیکھے گا، سوال یہ ہے کہ عام شہری کے حقوق کیسے متاثر ہوئے۔

جس پر وکیل نے جواب دیا کہ یہ معاملہ اہم سیاسی رہنماؤں کے کرپشن میں ملوث ہونے کا ہے۔ جہاں عوامی پیسے کا تعلق ہو، وہ معاملہ بنیادی حقوق کے زمرے میں آتا ہے۔ جعلی بینک اکاؤنٹس کیسز میں بھی بے نامی کا معاملہ تھا۔

پی ٹی آئی وکیل کا دلائل میں کہنا تھا کہ معاشی پالیساں ایسی ہونی چاہییں کہ عوام کے بنیادی حقوق متاثر نہ ہوں۔

پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے چوتھے روز بھی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ترمیم سے بے نامی دار کی تعریف مشکل بنا دی گئی ہے۔ نیب قانون سے زیر التوا مقدمات والوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھاکہ عدالت کسی شہری کی درخواست پر پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون کیسے کالعدم قرار دے سکتی ہے؟۔ نیب کی ترامیم کالعدم ہو بھی جائیں تو پہلے والا قانون کیسے ازخود بحال ہو جائے گا؟ سپریم کورٹ نے قانون کی تشریح کرنی ہے نہ کہ قانون ڈیزائن کرنا ہے۔

جس پر وکیل کا مؤقف تھا کہ عوامی پیسے کے معاملے پر عدالت قانون سازی کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ عوام کا پیسہ بدعنوانی کی نذر ہونا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ قوانین پارلیمنٹ بناتی ہے۔ بتائیں کس آئینی شق کو بنیاد بنا کر نیب قانون کو کالعدم قرار دیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ احتساب تندرست معاشرے اور تندرست ریاست کے لیے اہم ہے۔ کرپشن دنیا میں ہر جگہ موجود ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ کچھ نقائص بھی موجود ہیں۔ نقص یہ بھی ہے کہ کچھ سرکاری ملازمین جیلیں کاٹ کر بری ہو چکے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 1996ء میں ایک کیس میں زندہ درخت کی مثال دی جو  وقت کے ساتھ بڑھے گا۔ ملک میں اگر قانون نہیں ہوگا تو مافیاز ہوں گے۔ پاکستان میں بھی بہت سے  مافیاز ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وہ  کسی مافیا کا نام نہیں لیں گے ، لیکن مافیاز کی وجہ سے بد امنی اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے نظام میں مناسب ریگولیٹر موجود نہیں۔ دنیا میں جائیداد اور دولت پر ٹیکس لیا جاتا ہے، ہمارے ہاں 2001ء میں ویلتھ ٹیکس ختم کردیا گیا۔ آج ملک میں جائیداد بنانے پر کوئی کنٹرول ہے اور نہ احتساب ہے۔ یہ سب نکات سیاسی نوعیت کے ہیں ، جو پارلیمان نے طے کرنے ہیں۔ پلی بارگین اور 500 ملین روپے کی حد مقرر کرنے سے ملزمان کو فائدہ ہوا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ معاشی پالیسیوں کو دیکھنا سپریم کورٹ کا کام نہیں۔ معیشت پالیسی کا معاملہ ہوتا ہے جس میں عدالت مداخلت نہیں کر سکتی۔ عوام کے اثاثوں کی حفاظت ریاست کی ذمے داری ہے۔ بے تحاشہ قرض لینے کی وجہ سے ملک بری طرح متاثر ہوا ہے۔ قرضوں کا غلط استعمال ہونے سے ملک کا یہ حال ہوا۔

عدالت عظمٰی کا کہنا تھاکہ ملک میں 70 سے 80 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ زیادہ تر غیرضروری اخراجات ایلیٹ کلاس کی عیاشی پر خرچ ہوئے۔  عدالت حکومت کو قرض لینے سے نہیں روک سکتی۔

عدالت نے نیب سے 1999ء سے لے کر جون 2022ء تک تمام ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ طلب کرلیا۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی دریافت کیا کہ اب تک کتنے ایسے کرپشن کے کیسز ہیں، جن میں سپریم کورٹ تک سزائیں برقرار رکھی گئیں؟۔

اب تک نیب قانون کے تحت کتنے ریفرنسز مکمل ہوئے؟ جب کہ نیب قانون میں تبدیلی کے بعد کتنی تحقیقات مکمل ہوچکی ہیں ؟-

عدالت عظمٰی نے مقدمہ کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔

متعلقہ تحاریر