توشہ خانہ ریفرنس: عمران خان نااہل ہوئے یا چیف الیکشن کمشنر

سینئر تجزیہ کار شبیر حسین کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر صاحب کنفیوژ ہو گئے ہیں۔ الیکشن ایکٹ کے تحت اگر عمران خان کے خلاف کرمنل پروسیڈنگ ہونی ہے تو وہ 2018 کے اوپر ہونی ہے کیونکہ نومینیشن پیپر تب گئے تھے جب عمران خان وزیراعظم نہیں تھے۔

جمعے کے روز الیکشن کمیشن آف پاکستان توشہ خانہ ریفرنس میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو نااہل قرار دیا تھا جس کا تفصیلی فیصلہ ہفتے کی شام تمام پانچ ممبر کے دستخط کے ساتھ جاری کردیا گیا ، گوکہ پہلے روز جو ابتدائی فیصلہ جاری کیا گیا اس میں الیکشن کمیشن کے ایک ممبر کےدستخط موجود نہیں تھے۔

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو آرٹیکل 63 ون پی کے تحت کرپٹ پریکٹسز کا مرتکب قرار دیتے ہوئے نااہل قرار دیا گیا تھا۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار شبیر حسین صاحب نے اپنے تازہ ترین وی لاگ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تفصیلی فیصلے کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

لورا لائی کے کم عمر حافظ قرآن محمد زبیر نے کویت میں کامیابی کے جھنڈے گاڑدیئے

تجزیہ کار شبیر حسین صاحب کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 63 ون پی کے تحت عمران خان کو نااہل قرار دیا گیا ، یعنی وہ صرف موجودہ اسمبلی کی ٹرم تک نااہل رہیں گے ، یعنی 23 اگست 2023 تک کےلیے نااہل ہوئے ہیں ، موجودہ اسمبلی کے آخری دن سے پہلے پہلے۔

سینئر صحافی کا کہنا ہے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق عمران خان صرف اس سیٹ کے لیے نااہل ہوئے جو انہوں نے 2018 میں جیتی تھی۔ اس نشست پر تو عمران خان صاحب استعفیٰ دیئے بیٹھے ہیں ، یعنی جس سیٹ سے وہ استعفیٰ دے چکے ہیں اس پر نااہل کیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے پر تجزیہ دیتے ہوئے شبیر حسین صاحب کا کہنا تھا کہ حال ہی انہوں نے ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کی چھ نشستوں سے کامیابی حاصل کی ہے ، اور یہی الیکشن کمیشن ہو گا جو اُن کی کامیابی کا نوٹی فیکیشن بھی جاری کرے گا۔ الیکشن کمیشن کہے گا کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران احمد خان نیازی الیکٹ ہیں۔ یعنی الیکشن کمیشن نے جس شخص کو جمعے کے روز نااہل قرار دیا تھا آئندہ چند دنوں میں اس شخص کی کامیابی کا نوٹی فیکیشن بھی جاری کرےگا۔ کیونکہ عمران خان نے جو اب الیکشن لڑے ہیں وہ موجودہ ڈیکلریشن پر لڑے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے تفصیلی کے قانونی نکات پر گفتگو کرتے ہوئے شبیر حسین صاحب نے کہا ہے کہ عمران خان 63 ون پی کے تحت نااہل ہوئے ہیں اور جو فوجداری پروسیڈنگ شروع ہو گی وہ آرٹیکل 137 اور 170 کے تحت شروع ہو گی۔ یہ دونوں آرٹیکل اس وقت لاگو ہوتے ہیں کہ جب آپ کسی الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کراتے ہیں۔ جبکہ عمران خان کی نااہل ہوئی ہے 2019 کے ڈیکلریشن پر۔ جو انہوں نے سالانہ اپنے گوشوارے جمع کرائے ہیں۔

شبیر حسین صاحب کا کہنا ہے میرا خیال ہے کہ چیف الیکشن کمشنر صاحب کنفیوژ ہو گئے ہیں۔ انہوں نے 2018 میں جب کاغزات نامزدگی جمع کرائے عمران خان نے ، اس کو جوڑ دیا ہے 2019 کے ڈیکلریشن کے ساتھ جو بالکل غلط ہے ، الیکشن ایکٹ کے تحت اگر عمران خان کے خلاف کرمنل پروسیڈنگ ہونی ہے تو وہ 2018 کے اوپر ہونی ہے کیونکہ نومینیشن پیپر تب گئے تھے جب عمران خان وزیراعظم نہیں تھے۔ اس لیے توشہ خانہ ریفرنس ان پر لاگو بھی نہیں ہوتا تھا۔

سینئر تجزیہ کار شبیر حسین کا کہنا تھا اس لیے میرا مشورہ ہے کہ پیر کے روز چیف الیکشن کمشنر اپنے فیصلہ کو ٹھیک سے پڑھ کر آئیں نہیں تو اسلام آباد ہائی کورٹ انہیں پڑھوا دے گی جہاں پیر کے روز سماعت ہے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے پر شیبر حسین صاحب نے مزید کیا تبصرہ کیا ہے دیکھتے ہیں ان کے اس وی لاگ میں۔

متعلقہ تحاریر