ارشد شریف قتل کیس: کینین میڈیا نے پولیس پر سوالات کی بوچھاڑ کردی

کینیا کے این ٹی وی  کے تحقیقاتی صحافی برائن اوبویا نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل کی فوری اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کروائیں جائیں اور قاتلوں کو کٹہرے میں لایا جائے، صحافیوں نے پولیس حکام سے پوچھا  کہ  گاڑی روکنے کے لیے  ٹائرز پر فائر کیوں نہیں کیے گئے ۔ ڈرائیور کے بجائے مسافر کو کیوں نشانہ بنایا کیا ؟

کینیا کی پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف کی ناگہانی موت کے بارے میں  کینین میڈیا نے  بھی سوالات اٹھا دیئے ۔

کینیا کے این ٹی وی کے تحقیقاتی صحافی برائن اوبویا نے ارشد شریف کے قتل پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ مقتول پاکستانی صحافی اپنے ملک میں ایک مطلوب شخص تھے ۔

یہ بھی پڑھیے

جی ایچ کیو کے خط پر وزیراعظم کا ارشد شریف کے قتل پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا فیصلہ

برائن اوبویا نے کہا کہ پاکستان میں اعلیٰ حکام  کو مطلوب ارشد شریف دبئی میں روپوش ہوگئے تاہم دبئی کے بعد وہ کینیا پہنچیں۔ انہوں نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا وہ صرف غلطی سے مارے گئے ہیں۔

برائن نے کہا کہ کینیا کے ایڈیٹرزنے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ارشد شریف کے قتل کی فوری اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کروائی جائیں اور قاتلوں کو کٹہرے  میں لایا جائے ۔

برائن اوبایا کا کہنا تھا کہ کینیا کے ایڈیٹرز نے کہا  ہے کہ  حکومت شہریوں اور زائرین کے تحفظ کی صلاحیت کا مظاہرہ کرے گا بشمول صحافی جن کے حقوق کا اسے تحفظ کرنا چاہیے۔

این ٹی وی کینیا کے تحقیقاتی صحافی نے کہا کہ ارشد شریف کو ماری جانے والی جان لیوا گولی  پیچھے سے چلائی گئی  جو کہ ان کے سر میں لگی اور سامنے کی طرف سے باہر نکل گئی ۔

کینیا کے دیگر صحافیوں نے بھی اس حوالے سے اپنے تحفظات ظاہر کیے ۔ مقامی میڈیا نے پوچھا کہ ارشد شریف کی گاڑی کو روکنے کی کوشش کی ؟ ۔

میڈیا گروپ نے سوال اٹھایا کہ گاڑی نہیں روکی گئی تھی؟ ۔ کیا کار سواروں نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کی اگر نہیں کی تو پھر پولیس نے فائرنگ کیوں کی ؟۔

صحافیوں نے پولیس حکام سے پوچھا  کہ گاڑی روکنے کیلئے ٹائرز پر فائر کیوں نہیں کیے گئے ۔ ڈرائیور کے بجائے مسافر کو کیوں نشانہ بنایا کیا ؟۔

پاکستانی قانون دان اظہر صدیقی نے ایک کینیا کے ٹی وی چینل کی کلپ شیئر کیا جس میں ارشد شریف کے قتل کےحوالے سے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

اظہر صدیقی ایڈوکیٹ نے کہا کہ جو کینیا میں ارشد شریف کا سازش کے تحت قتل نہیں سمجھتے، یہ کینیا کی ٹی وی چینل کے رپورٹ ملاحظہ کریں ۔

متعلقہ تحاریر