تحریک انصاف کا لانگ مارچ روکنے کی حکومتی استدعا مسترد

عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے جمعہ کے روز لانگ مارچ کے اعلان پر نوٹس جاری کرنے کی استدعا مسترد کردی۔

سپریم کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو توہین عدالت کیس میں نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان عدالت آکر واضح کردیں کہ کس نے کیا کہا تھا۔ جب کہ لانگ مارچ کے اعلان کرنے پر نوٹس لینے کی استدعا عدالت نے مسترد کردی۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے توہین عدالت سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریلی کے حوالے سے یقین دہانی عمران خان کی جانب سے وکلا نے کرائی تھی۔عمران خان کے بیان سے لگتا ہے انہیں عدالتی حکم سے آگاہ نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

اسلام آباد ہائی کورٹ کا وزارت داخلہ و خارجہ کو ارشد شریف کی فیملی سے ملاقات کا حکم

تحریک انصاف کے گرفتار رہنما صالح محمد کے گلے میں تختی لٹکانے پر پولیس اہلکار معطل

عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے رکاوٹیں ہٹانے کا کہا ہے۔عمران خان کو کیا بتایا گیا اصل سوال یہ ہے۔عمران خان آکر عدالت کو واضح کردیں کس نے کیا کہا تھا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 25 مئی کی شام عمران خان کی جانب سے احتجاج کے لئے ڈی چوک اسلام آباد آنے کی کال توہین عدالت ہے۔ عمران خان مختص جگہ سے آگے آئے اور ریلی ختم کی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے سرینگر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست دی تھی، عمران خان نے عدالتی حکم سے پہلے بھی ڈی چوک جانے کا اعلان کیا تھا، عمران خان کے بعد شیریں مزاری،فواد چودھری اورصداقت عباسی کے علاوہ عثمان ڈار ،شہباز گل اور سیف اللہ نیازی نے بھی ڈی چوک آنے کی کال دی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ پولیس اور حساس اداروں کی رپورٹس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔  پولیس، آئی ایس آئی اور آئی بی رپورٹس ہی پر سب اداروں کا انحصار ہے۔ عدالت کا پہلا سوال تھا کہ عمران خان نے ڈی چوک آنے کی کال کب دی تھی۔عدالتی حکم 25 مئی کو شام 6 بجے آیا تھا، عمران خان نے 6 بج کر 50 منٹ پر ڈی چوک کا اعلان کیا۔عمران خان نے دوسرا اعلان 9 بج کر 54 منٹ پر کیا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بابر اعوان ، فیصل چودھری نے عمران خان کی طرف سے یقین دہانی کروائی تھی کہ سڑکیں بلاک ہوں گی نہ مختص مقام سے آگے جائیں گے۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نوٹس میں یقین دہانی کا ذکر ہے لیکن تحریری طور پر یہ بات کہاں موجود ہے؟۔

عامر رحمان نے کہا کہ عدالت نے فیصل چودھری اور بابر اعوان کو عمران خان سے ہدایات لینے کا کہا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مناسب ہو گا حکومتی الزامات پر یقین دہانی کرانے والوں سے جواب مانگ لیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کے پاس قانون کی خلاف ورزی پر کارروائی کا اختیار ہے۔

عدالت صرف چاہتی تھی کہ کوئی ظالمانہ اقدام نہ کیا جائے۔قانون کے مطابق احتجاج سب کا حق ہے۔

عدالت کا چئیرمین تحریک انصاف عمران خان کو نوٹس جاری  کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم سرخیاں نہیں بنوانا چاہتے بلکہ قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں۔سول نوعیت کی توہین عدالت میں شوکاز پر ہی پیش ہونا پڑتا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ فی الحال توہین عدالت کا نوٹس یا شوکاز نوٹس جاری نہیں کر رہے۔ عمران خان کا جواب آ جائے پھر جائزہ لیں گے کہ توہین عدالت ہوئی یا نہیں۔

عدالت عظمٰی نے کہا کہ جائزہ لینا ہے کیا یقین دہانی ڈی چوک نہ آنے کی کرائی گئی تھی۔ حکومتی الزامات پر بھی عمران خان کا مؤقف سننا چاہتے ہیں۔

عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے جمعہ کے روز لانگ مارچ کے اعلان پر نوٹس جاری کرنے کی استدعا مسترد کردی۔

متعلقہ تحاریر