ارشد شریف  قتل کیس: چار اہم سوالات تاحال جواب طلب !

کینیا کے داراحکومت نیروبی میں سینئر صحافی ارشد شریف کے پراسرار قتل نے چاراہم سوالات کو جنم دیا جوکہ تاحال جواب طلب ہیں، صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے خرم اور وقار کو شامل تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا، ارشد شریف کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون کی عدم دستیابی بھی شکوک و شبہات کو جنم دے رہے ہیں

کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے سینئر صحافی، ٹی وی اینکر اور یوٹیوبر ارشد شریف کے پراسرار قتل نے چار اہم سوالات کو جنم دیا جوکہ تاحال جواب طلب ہیں۔

صحافی ارشدشریف کو اتوار کی رات کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں قتل کردیا گیا تھا۔ ارشد شریف کا شمار پاکستان کے معروف تحقیقاتی صحافیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کے لیے ملک کے اہم سیاسی واقعات کی کوریج کی۔

یہ بھی پڑھیے

ارشد شریف قتل کیس: کینین میڈیا نے پولیس پر سوالات کی بوچھاڑ کردی

مقتول صحافی ارشد شریف کی میت بدھ کی صبح نجی ایئرلائن کے طیارے کے ذریعے اسلام آباد پہنچائی گئی۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر اہل خانہ، صحافیوں اور سیاسی رہنماؤں نے میت  وصول کی ۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان کے بعد مقتول سینئر صحافی ارشد شریف کے اہل خانہ نے ان کی موت کو ’ٹارگٹ کلنگ‘ قرار دیا۔

وفاقی حکومت نے صحافی کے قتل کیس کی عدالتی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا اور دو رکنی کمیٹی تشکیل دی جو شواہد اکٹھے کرنے کے لیے کینیا روانہ ہوگئی۔

ارشد شریف کو کس نے قتل کیا ؟

کینیا کی پولیس کا کہنا ہے کہ ارشد شریف غلط شناخت کی وجہ سے پولیس کی گولی کا نشانہ بنے۔ حکام نے کہا کہ ان کے ڈرائیور نے ناکے پر رکنے کی بجائے بھاگنے کو ترجیح دی جس پر فائر کرنا پڑا اور گولی ارشد شریف کے سر میں لگی ۔

کینیا کے ایک ٹی وی چینل سٹیزن نیوز نے  اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ پولیس نے مبینہ طور پر اسے پولیس مقابلہ قرار دیا ہےجس میں ایک پولیس اہلکار زخمی بھی ہوا جبکہ اس موقع پر دیگر شوٹرز کے بارے میں شبہات پیدا ہورہے ہیں۔

سٹیزن ٹی وی کی رپورٹ میں پولیس سے متعلق دعویٰ کیا گیا ہے کہ سیکیورٹی اہلکاروں کو ارشد شریف کی گالی سے پستول کی گولیاں ملی ہیں جبکہ پہلی گولی اس گاڑی سے چلائی گئی جس میں صحافی موجود تھے ۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فیصل واوڈا نے گزشتہ روزاپنی ایک پریس کانفرنس میں بھی دعویٰ کیا ہے کہ ارشد شریف کو گاڑی کے اندرسے کسی نے بظاہر انتہائی قریب سے سر میں گولی ماری۔

ملکی اور غیرملکی دفاعی  تجزیہ کاروں اور سیاسی رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ کینین پولیس کے بیانات کی مکمل چھان بین کی جانی چاہیے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ارشد شریف کو جائے وقوعہ پر کس نے قتل کیا۔

خرم احمد اور وقار احمد کہاں ہیں؟

صحافیوں اوردفاعی تجزیہ کاروں سمیت دیگر کئی اہم افراد نے ارشد شریف کے قتل کے بعد خرم احمد اور وقار احمد کے ٹھکانے پر سوال اٹھائے ہیں ۔

خرم احمد کا مشکوک کردار: نیروبی میں مقتول سینئر صحافی ارشد شریف کے ساتھ موجود گاڑی چلانے والے خرم احمد پولیس کی فائرنگ سے بچ گئے جبکہ اس کے بھائی وقار احمد کو اس نے واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کیا ۔

ترک  نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی ورلڈ کے ایک تحقیقاتی صحافی علی مصطفیٰ نے کینیا میں شوٹنگ رینج کے مالک خرم احمد اورانکے بھائی وقار احمد کے مشکوک کردار کے حوالے سے ایک ٹوئٹر تھریڈ پوسٹ کیا۔

علی مصطفیٰ نے کہا کہ خرم اور وقاراحمد سے  تحقیقات کی سخت ضرورت ہے کیونکہ ارشد شریف کے قتل کے اہم گواہاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وقار احمد کیس کا مرکزی آدمی لگتا ہے ۔

انہوں نے  کہا کہ ان دونوں بھائیوں سے تفتیش کی جائے۔ وقاراحمد اس فارم ہاؤس اور شوٹنگ رینج کا مالک ہے جہاں یہ افسوسناک  جرم ہوا اوراس نے ارشد کی لاش کو جلد بازی میں پہنچانے کا بھی انتظام کیا۔

ارشد شریف نے مارے جانے سے چند گھنٹے قبل وقار احمد کے شوٹنگ رینج (  AMMODUMP ) کا دورہ کیا۔ یوٹیوب پرشوٹنگ رینج کے چینل پر بتایا جاتا ہے کہ یہ سیکیورٹی اہلکاروں کیلیے ایک اہم ریسس سائٹ ہے جہاں شوٹنگ کی مہارت کو بہتر بنا یا جاتا ہے ۔

پولیس کی فائرنگ سے بچ جانے والا ڈرائیور خرم احمد، وقار احمد کا بھائی ہے، جو( AMMODUMP ) شوٹنگ رینج کے مالک ہے جہاں ارشد قتل ہونے سے پہلے جارہا تھا اور اس کی لاش کو قتل کرنے کے بعد پہنچایا گیا تھا ۔

تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ کینیا کی پولیس نے ابھی تک خرم احمد کو نہیں پکڑا جو مبینہ طور پر مقتول صحافی کو لے جانے والی گاڑی چلا رہا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کینیا میں پاکستانی ہائی کمشنر کو بھی خرم احمد تک رسائی نہیں دی گئی۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کہاں ہے؟

تجزیہ کاروں نے ارشد شریف کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے وجود پر سوالات اٹھائے اور کیا یہ کینیا کی پولیس نے انجام دیا یا نہیں۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ارشد شریف کا پوسٹ مارٹم کینیا میں ہوا یا نہیں۔

 انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ کینیا میں پرفارم کیا گیا تو رپورٹ ابھی تک جاری کیوں نہیں کی گئی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پمز اسلام آباد کے ڈاکٹر نے کینیا کی حکومت سے پوسٹ مارٹم رپورٹ طلب کی لیکن درخواست کا جواب نہیں دیا گیا۔

ارشد شریف کا لیپ ٹاپ اور موبائل کہاں ہے؟

تجزیہ کاروں نے مقتول صحافی کے برآمد ہونے والے موبائل فون اور لیپ ٹاپ کے بارے میں بھی سوالات کیے جو کینیا میں خود ساختہ جلاوطنی کے دوران اس کی سرگرمیوں اور نقل و حرکت کے بارے میں حقائق سے پردہ اٹھا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کینیا کی حکومت نے شریف کا برآمد شدہ لیپ ٹاپ اور موبائل فون فراہم نہیں کیا جس سے صحافی کی موت پر شکوک و شبہات بڑھ گئے۔

متعلقہ تحاریر