اسلام آباد انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو جلسے کے لیے 39 نکاتی بیان حلفی تھما دیا

اسلام آباد ہائی کورٹ میں انتظامیہ کی جانب  سے جمع کرائے بیان حلفی میں پی ٹی آئی انتظامیہ سے جلسے کے دوران توڑ پھوڑ اور قانون ہاتھ میں نہ لینے کی یقین دہانی مانگی گئی ہے۔

اسلام آباد انتظامیہ نے ہائی کورٹ میں جمع کروائے گئے بیان میں پاکستان تحریک انصاف سے جلسے اور دھرنے کی اجازت کے لیے 39 نکاتی بیان حلفی طلب کر لیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جلسے اور دھرنے کی اجازت دینے سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے طلب کئے گئے بیان حلفی میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی یقین دہانی کرائے کہ احتجاج کے دوران کوئی توڑ پھوڑ نہیں ہوگی اور نہ قانون ہاتھ میں لیا جائے گا جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے بیان حلفی پر دستخط ضرور ہونے چاہئیں۔

یہ بھی پڑھیے

وزیرآباد:پی ٹی آئی کے لانگ مارچ میں فائرنگ ، عمران خان سمیت 5 افراد زخمی

بلوچ اور کے پی طلباء کے خلاف نسل پرستانہ ریمارکس پر رضی دادا کو تنقید کا سامنا

اسلام آباد انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت صرف ایک دن کے لیے ہو گی، اسٹیج پر 12 افراد کون ہوں گے یہ بھی بتایا جائے، اس کی انتظامیہ سے اجازت لینا ہو گی۔

انتظامیہ نے کہا کہ پی ٹی آئی جلسے میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ممنوع ہوگا، جلسے میں مذہب سے متعلق بیان بازی سے گریز کرنا ہو گا۔18 برس سے کم عمر کے افراد احتجاج میں شریک نہیں ہوں گے۔

اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ جلسے میں کسی قسم کا اسلحہ لانے کی اجازت نہیں ہوگی، منتظمین یقینی بنائیں جلسے میں قومی یا پارٹی پرچم نذر آتش نہیں ہو گا۔

اسلام آباد انتظامیہ نے ایڈووکیٹ جنرل کے ذریعے تحریری جواب بھی ہائی کورٹ میں جمع کروا دیا ہے جس میں انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو جلسے کے لیے سری نگر ہائی وے کے بجائے ٹی چوک کی متبادل جگہ پر جلسے کی پیشکش کی ہے۔

پی ٹی آئی رہنما علی نواز اعوان کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بیرسٹر جہانگیر جدون، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور پی ٹی آئی وکیل ڈاکٹر بابر اعوان عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف نے ہمیشہ شرائط و ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے ہم ان پر اعتماد نہیں کر رہے، 2 سینئر وکلا کی یقین دہانی کو پی ٹی آئی کی قیادت نے ماننے سے انکار کردیا، ان کے لیے ہم نے ڈی چوک کی جگہ رکھ دی ہے یہ جلسہ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ حکومت نے  کنٹینرز لگا کر سارا شہر بند کردیا ہے، آدھا شہر انہوں نے ریڈ زون میں تبدیل کردیا ہے۔ڈی چوک جی ٹی روڈ ہے، جو ریڈ زون پہلے تھا اب حکومت نے اس  کی حدود کو بڑھا دیا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے25 مئی کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اور عمران خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا جواب پڑھ کرسنایا۔

ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ پچھلی بار جلسے اور دھرنے کی جگہ دینے کے باوجود تجاوز کیا گیا، یہ بھی ان سے پوچھ لیں یہ لوگ اسلام آباد کب آئیں گے، اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم ڈاکٹر بابر اعوان سے پوچھ لیتے ہیں کہ وہ کب اسلام آباد آرہے ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ عمومی طور پر جلسوں کی اجازت سے متعلق کیا طریقہ کار ہے؟ بیرسٹر جہانگیر جدون نے جواب دیا کہ ہوتا تو یہی ہے کہ پارٹی کی اجازت سے ہی یقین دہانی کرائی جاتی ہے، انہوں نے جو ریلی کی تھی اس سے نقصان ہوا تھا پولیس والے زخمی ہوئے تھے۔

عدالت عالیہ نے دریافت کیا کہ جہاں بھی اجتماع کے لئے جگہ مقرر کی جائے تو اس کی خلاف ورزی کا ذمہ دار کون ہوگا؟۔ سپریم کورٹ کا ایک حکم بھی ہے وہاں توہین عدالت کیس بھی چل رہا ہے، اس کیس میں مناسب حکم نامہ جاری کریں گے۔

جس پر پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ جو معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے اس پر نہیں بولنا چاہتا۔

عدالت نے کہا کہ پی ٹی آئی کے وکیل کہتے ہیں جو جگہ دی جائے وہاں وہ نہیں ہو گا جو پہلے ہوا؟۔

عدالت نے دریافت کیا کہ کون اس کی ذمہ داری لے گا؟ اس پر بابر اعوان نے جواب دیا کہ علی نواز اعوان پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، پارٹی اس کی ذمہ داری لے گی۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ کل آپ نے یہاں کہا 6 یا 7 تاریخ ہے، پھر کچھ اور کہا، تاریخ کے حوالے سے آپ کو واضح ہونا ہے۔

بیرسٹر جہانگیر جدون نے کہا کہ اب تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ 10 ماہ تک رہیں گے، ان کو کوئی مقررہ تاریخ بتانی ہوگی۔

ایڈووکیٹ جنرل بیرسٹر جہانگیر جدون نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے جب تک رابطہ نہ ہو جائے ہم ان پر اعتماد نہیں کر سکتے، بیان حلفی پر چیئرمین پی ٹی آئی کے دستخط ہونے چاہئیں، ہمارا بندہ ان کے پاس چلا جائے گا۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے جلسے کی اجازت اور این او سی سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

متعلقہ تحاریر