محض اتفاق یا کچھ اور: اعلیٰ سیاسی اور عسکری شخصیات کے لاہور میں ڈیرے

سب کی نظریں قومی سیاست کے متوقع نتائج پر مرکوز ہیں کیونکہ اعلیٰ سیاسی اور عسکری شخصیات نے پنجاب کے دارالحکومت لاہور ڈیرے ڈال لیے ہیں جوکہ شائد کوئی اتفاق نہیں ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کی لندن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سے سیاسی صورتحال اور آرمی چیف کی اہم تقرری پر مشاورت کے بعد لاہور پہنچنے کا امکانات ہیں۔ شہباز شریف کی آج وطن واپسی متوقع تھی ، لیکن تازہ ترین اطلاعات کے مطابق انہوں نے اپنا قیام مزید ایک دن کے لیے بڑھا لیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ گزشتہ روز ملتان گیریژن کا دورہ کیا تھا ، فوجیوں اور افسران کے ساتھ الوداعی ملاقات بعد وہ ایک دن کے لیے لاہور پہنچ گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

پی ٹی آئی کرپشن مقدمات میں سستی ، پرانے ڈی جی نیب لاہور رخصت نئے آ گئے

افواج پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات قابل مذمت ہیں، صوبائی وزیربلوچستان

اطلاعات کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی بھی لاہور پہنچ گئے ہیں۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کچھ دن پہلے ہی ایوان صدر میں جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان کے درمیان کم از کم ایک براہ راست ملاقات کے لیے سہولتکاری کی تھی۔

پاکستان کے معروف انگریزی اخبار ڈان کی رپورٹ کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی پی ٹی آئی کے ساتھ فوج کے جاری ’’بیک چینل مذاکرات‘‘ میں سرکردہ شخصیت کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

روزنامہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ ہفتے وزیرآباد میں حملے میں عمران خان کے زخمی ہونے کے بعد ، صدر مملکت ڈاکٹر عارف سے جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے عمران خان کی صحت کے بارے میں دریافت کیاتھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر ڈاکٹر عارف علوی آج (ہفتے کے روز) عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ سے الگ الگ ملاقاتیں کرنے والے ہیں۔ اس ملاقات میں فوج کی جانب سے کسی نئے پیغام کے آنے کے امکان کو مسترد نہیں کیاجاسکتا۔

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان پہلے ہی لاہور میں موجود ہیں، جو اس ماہ کے شروع میں لانگ مارچ کے دوران وزیر آباد میں قاتلانہ حملے میں زخمی ہوگئے تھے۔

یہ ملاقات ان اطلاعات کے پس منظر میں ہو رہی ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے سیاسی تناؤ کو کم کرنے کے لیے کوئی "رعایت” دینے سے انکار کر دیا تھا۔

ڈان نیوز نے اپنی ابتدائی رپورٹس میں بتایا تھا کہ فوج کی جانب سے سیاسی تناؤ کو کم کرنے کے لیے مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کی قیادت پر دباؤ ڈالا جارہا ہے تاکہ کوئی درمیانی راستہ نکالا جاسکے۔

متعلقہ تحاریر