حکومت نے قبل ازوقت انتخابات پر غور شروع کردیا، ذرائع

نیوز 360 کے ذرائع کے مطابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مشکل ترین معاشی فیصلوں اور آئی ایم ایف کے ڈومور کے مطالبے موجودہ حکومت سے کرانے کی بجائے نگران حکومت کی طرف منتقل کرنے کی تجویز دے دی ہے۔

حکومت نے قبل ازوقت انتخابات پر غور شروع کردیا، حکومت نے غیر مقبول اور سخت ترین معاشی فیصلوں سے جان چھڑانے اور آئی ایم ایف کی شرائط نہ ماننے کے متبادل پلان پر غور شروع کردیا، مشکل ترین معاشی فیصلے نگران حکومت کے کھاتے میں ڈالے جاسکتے ہیں۔

ملک کے مقتدر ترین معاشی حلقوں نے نیوز 360 کو بتایا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مشکل ترین معاشی فیصلوں اور آئی ایم ایف کے ڈومور کے مطالبے موجودہ حکومت سے کرانے کی بجائے نگران حکومت کی طرف منتقل کرنے کی تجویز دے دی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

لانگ مارچ کے خلاف دائر درخواست پر پنجاب حکومت کو مزید مہلت مل گئی

پاکستانی میڈیا نے میراکالم صرف عمران خان کی مخالفت تک محدود رکھا، سدآنند دھومے

ذرائع نے بتایا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ لندن میں بھی تمام غیر مقبول اور سخت ترین معاشی فیصلے موجودہ حکومت کے کھاتے میں ڈالنے سے معذرت کرنے کی تجویز پر غور کیا گیا ہے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو آئی ایم ایف سے مذاکرات میں سخت ترین معاشی فیصلوں اور کڑی شرائط کا سامنا ہے۔ جس میں  600 ارب روپے کی ٹیکس آمدن بڑھانے یعنی 600 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے ، پٹرول ، بجلی اور گیس کے ریٹ مرحلہ وار بڑھانے اور 16 ارب ڈالر کی دیوہیکل رقم کرنٹ اکاؤنٹ کا توازن برقرار رکھنے کے لیے اکھٹی کرنا ہے۔

ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) اب اس بات پر غور کر رہی ہے کہ نومبر کے آخر میں آرمی چیف کی تعیناتی اور نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد ملک میں قبل از وقت انتخابات کرائے جائیں، اس سے سلسلے میں اتحادیوں کو ایک مکمل جامع پلان دیا جائے گا۔ جس میں یہ تجویز دی جائے گی کہ نگران حکومت سے تمام مشکل معاشی فیصلوں پر عمل درآمد کرایا جائے اور آئی ایم ایف کی تمام کٹھن ترین شرائط نگران حکومت کے کھاتے میں ڈال دی جائیں۔

نگران حکومت 70 سے 80 دنوں کے اندر مارچ کے وسط تک انتخابات کرائے اور رمضان سے قبل نئی حکومت تشکیل پائے تاکہ رمضان کے بعد نئی حکومت بجٹ کی تیاری کرسکے۔

موجودہ حکومت کو مشکل ترین اور کٹھن معاشی فیصلوں پر آئی ایم ایف کو بھی رام کرنا ہے کیونکہ آئی ایم ایف کئی بار یہ واضح کر چکا ہے کہ انہیں تمام شرائط پر عمل درآمد کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری درکار  ہے۔

ساتھ ساتھ یہ بھی واضح رہے کہ آئی ایم ایف کی پاکستان میں نمایندہ ایسٹر پریز نے اس سال جولائی کے وسط میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران صحافیوں کو بتایا تھا کہ پاکستان میں وفاقی حکومت تحلیل اور نگران حکومت کا قیام عمل میں آتا ہے تو بھی آئی ایم ایف کو معاشی پیکیج پر مذکرات کیلئے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

متعلقہ تحاریر