ارشد شریف قتل کیس: سپریم کورٹ کی جے آئی ٹی کو دو ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت

سپریم کورٹ کی حکم پر وفاقی حکومت نے ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقاتی کے لیے 5 رکنی جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے۔

وفاقی حکومت نے صحافی ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے کر نوٹی فیکیشن سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ہدایت کی ہے کہ جے آئی ٹی فوری طور پر تحقیقات شروع کرے اور دو ہفتوں میں رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جائے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل لارجر بینچ نے ارشد شریف قتل کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیے

ترکیہ اور بیلجیئم میں تعینات پاکستانی سفارتی عملہ دسمبر کی تنخواہوں سے تاحال محروم، ذرائع

روزنامہ جنگ کے صحافی اور ملازمین گزشتہ 2 ماہ سے تنخواہوں سے محروم

گزشتہ روز سپریم کورٹ نے ارشد شریف قتل کیس میں اسلام آباد پولیس کی قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) مسترد کرتے ہوئے آئی ایس آئی، پولیس، آئی بی اور ایف آئی اے کے نمائندوں پر مشتمل نئی خصوصی جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔

وفاقی حکومت کی جانب سے عدالت عظمیٰ کو بتایا گیا کہ جو پانچ رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس میں ڈی آئی جی ساجد کیانی، آئی بی کے وقار الدین سید، ایف آئی اے کے اویس احمد ، ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر مرتضی افضال، جبکہ آئی ایس آئی سے محمد اسلم کو شامل کیا گیا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ تمام افسران گریڈ بیس کے ہیں۔

خصوصی جے آئی ٹی میں اسلام آباد پولیس ، آئی ایس آئی ، آئی بی اور ایف آئی اے کے نمائندے شامل ہیں۔

سپریم کورٹ نے نئی اسپیشل جے آئی ٹی سے دو ہفتوں بعد پیشرفت رپورٹ طلب کر لی اور یہ بھی حکم دیا ہے عبوری پیشرفت رپورٹس ججز کو جائزے کے لیے چیمبرز میں پیش کی جائے جب کہ اسلام آباد پولیس اس ٹیم سے تعاون کرے۔

وفاقی حکومت کی جانب سےسپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ بیان ریکارڈ کرنے کے لیے گذشتہ روز ارشد شریف کی والدہ سے رابطہ کیا گیا لیکن انھوں نے ناسازی طبعیت کے سبب بیان ریکارڈ نہیں کروایا۔

وزارت خارجہ نے کیس میں تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا، جواب میں کہا گیا ہے کہ وزارت خارجہ کینیا اور متحدہ عرب امارات میں موجود پاکستانی مشن سے مسلسل رابطے میں ہے۔ دفتر خارجہ کینیا اور متحدہ عرب امارات کی اتھارٹیز سے کیس کی تفتیش اور شواہد کے حصول کے لیے رابطے میں ہے۔

اپنے جواب میں وزارت خارجہ نے بتایا ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے بھی کینیا کے صدر سے ٹیلیفونک رابطہ کر کے تفتیش میں معاونت کی درخواست کی ہے، کینیا کی اتھارٹیز کے ساتھ روابط کے جلد مثبت نتائج سامنے آئیں گے، پاکستان میں کینیا ہائی کمیشن نے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ شواہد جمع کرنے اور تفتیش کا عمل جاری ہے، کینیا ہائی کمیشن جلد حتمی نتائج پاکستان کے ساتھ شیئر کرے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزارت خارجہ نے اپنی رپورٹ میں اچھی تجاویز دی ہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ضرورت پڑی تو ملزمان کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سے بھی رابطہ کیا جائے گا۔

بینچ میں موجود جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی کتنے عرصے میں تفتیش مکمل کرے گی؟ جس پر ایڈشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ تفتیش کینیا پولیس کے تعاون پر منحصر ہوگی۔انھوں نے کہا کہ ’تفتیشی ٹیم اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کرے گی کہ جلد کام مکمل ہو۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ ملزمان خود پیش ہو جائیں۔ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر ملزمان پیش نہ ہوں تو قانونی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر جے آئی ٹی کو کسی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑے تو فوری درخواست دے، سپریم کورٹ نے ارشد شریف قتل پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی۔

متعلقہ تحاریر