اعظم نذیر تارڑ اور رضا ربانی نے ٹیکنوکریٹ حکومت کو غیرآئینی قرار دے دیا
رہنما پیپلز پارٹی اور وفاقی وزیر قانون کا کہنا ہے 'ٹیکنو کریٹک یا طویل مدتی نگراں حکومت کی بات' کی آئین میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔
اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما سینیٹر رضا ربانی نے ٹیکنوکریٹ حکومت یا طویل مدتی نگراں حکومت کے قیام کی باتوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ جبکہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ کو غیرآئینی قرار دیا ہے۔
جمعہ کے روز اپنے جاری بیان میں سینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ "ٹیکنو کریٹ نگراں حکومت یا طویل مدتی نگراں حکومت کی باتیں 1973 کے آئین کے خلاف ہے، اس لیے اس کی مذمت بھی کی جائے گی اور اس کے خلاف مزاحمت بھی کی جائے گی۔”
یہ بھی پڑھیے
خیبرپختونخوا حکومت اور گورنر میں ٹھن گئی، غلام علی نے بڑی دھمکی دے ڈالی
اراضی فراڈ کیس: لیگی رکن اسمبلی چوہدری اشرف 2 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ 1973 کے آئین کے آرٹیکل 224 نگران کابینہ کے انتظام کی نشاندہی کرتا ہے ، جس کے تحت ایسی نگراں کابینہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے پر یا اسے آرٹیکل کے تحت تحلیل ہونے کی صورت میں فعال کیا جاتا ہے۔
رضا ربانی کے مطابق آئین کے آرٹیکل 58 یا آرٹیکل 112 کے تحت سبکدوش ہونے والی اسمبلی کے وزیراعظم یا وزیراعلیٰ قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے نگراں سیٹ اپ کا تقرر کرسکتے ہیں۔
رضا ربانی نے مزید کہا ہے کہ "آئین میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے تو پھر آئین کے آرٹیکل 224 اے کو متحرک کیا جاتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے رضا ربانی نے کہا ہے کہ حکومتی عہدیداروں کو غیر آئینی طرز حکومت کی تجاویز دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایسی ٹیکنوکریٹ حکومت قائم ہوتی ہے تو اس سے سیاسی عدم استحکام کے سیلاب کے دروازے کھل جائیں گے جس کا اثر پہلے سے بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال پر پڑے گا۔
دوسری جانب وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ آئین میں ٹینکوکریٹ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ آئین میں بڑا واضح لکھا ہے کہ اگر اسمبلی اپنی مدت پوری نہیں کرتی تو اسمبلی کی تحلیل پر 90 روز میں انتخابات کرانا ہوں گے۔
وفاقی وزیر قانون کا مزید کہنا ہے کہ اگر اسمبلی اپنے وقت پر تحلیل ہوتی ہے تو 60 دن بعد انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ تاہم کسی بھی صورت میں نگراں حکومت کے علاوہ آئین میں کوئی دوسری گنجائش موجود نہیں ہے۔