جنرل (ر) باجوہ کے ایف بی آر ڈیٹا لیک کا معاملہ: صحافی شاہد اسلم دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے
صحافی شاہد اسلم کو ایف بی آر سے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے اہلخانہ سے متعلق ٹیکس معلومات حاصل کر کے اسے تحقیقاتی جریدے فیکٹ فوکس سے منسلک صحافی احمد نورانی کو بھیجنے کے الزام میں گذشتہ روز گرفتار کیا گیا تھا۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے نجی نیوز چینل سے تعلق رکھنے والے صحافی شاہد اسلم کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا۔ انہیں پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے اہلِخانہ کے ٹیکس ریکارڈز کی معلومات لیک کرنے کے الزام میں گزشتہ روز گرفتار کیا گیا تھا۔
صحافی شاہد اسلم کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں جج عمر شبیر کے سامنے پیش کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ڈیم فنڈ کے 16 ارب روپے کے آڈٹ کا حکم
موجودہ سیاسی حالات میں ملک واپس نہیں آسکتا ، نواز شریف
پراسیکیوٹر نے اس موقع پر دعویٰ کیا کہ شاہد اسلم کو ایف بی آر سے معلومات مل رہی تھیں جو وہ صحافی احمد نورانی کو دے رہے تھے۔
پراسیکوٹر نے سوال کیا کہ شاہد اسلم اپنے لیپ ٹاپ اور موبائل کا پاسورڈ کیوں نہیں دے رہے؟۔
جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بطور صحافی انفارمیشن لینا غلط نہیں۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ ایف بی آر کی انفارمیشن لیک کرنے والے ملزمان نے شاہد اسلم کا بار بار نام لیا ہے۔
ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت سب سے پہلے اس بات کا تعین کرے کہ صحافی شاہد اسلم کو قانون کے تحت گرفتار کیا بھی گیا ہے یا نہیں۔ اگر شاہد اسلم کو قانون کے برعکس گرفتار کیا گیا ہے تو یہ اغوا کا کیس ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہنا تھا کہ کیا ’کیس میں ملزمان کے بیان کو مصدقہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ شاہد اسلم کو محض بیان کی بنیاد پر گرفتار کرنا بالکل غلط ہے۔ اگر ایف آئی اے کے پاس کوئی ثبوت ہے تو عدالت کے سامنے پیش کرے۔ شاہد اسلم پر لگائی گئی چاروں دفعات نہیں بنتیں، شک کی بنیاد پر گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔
صحافی شاہد اسلم کا عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ڈیٹا تو ہر صحافی کے پاس ہوتا ہے، اس کے بغیر صحافت نہیں ہو سکتی لیکن میں نے یہ کسی کو منتقل نہیں کیا۔
ایف آئی اے کی جانب سے اس حوالے سے اس سے قبل ایف بی آر کے چند اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی اور ان اہلکاروں سے تفتیش کی جا رہی ہے جبکہ اسی ضمن میں صحافی شاہد اسلم کو شاملِ تفتیش کیا گیا ہے۔
ایف بی آر کے ان اہلکاروں میں لاہور کے ریجنل ٹیکس آفس کے سپروائزر ارشد علی قریشی، سپروائزر کارپوریٹ ٹیکس آفس شہزاد نیاز اور یو ڈی سی آر ٹی او لاہور محمد عدیل اشرف شامل ہیں جن پر یہ الزام ہے کہ انھوں نے یہ تفصیلات ’غیر متعلقہ افراد کو منتقل کی تھیں۔‘
ایف آئی آر میں یہ تفصیل بھی درج کی گئی ہے کہ شہزاد نیاز نے جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کی اہلیہ کے ٹیکس ریکارڈ تک رسائی حاصل کی اور پھر اسے ارشد علی قریشی سے شیئر کیا۔ جبکہ عدیل اشرف نے سابق آرمی چیف کی بہو ماہ نور صابر کے ٹیکس ریکارڈ تک رسائی حاصل کی اور اسے ارشد علی قریشی کے ذریعے شہزاد نیاز سے شیئر کیا اور پھر اسے غیر متعلقہ افراد سے بھی شیئر کیا۔
صحافی شاہد اسلم کو ایف بی آر سے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے اہلخانہ سے متعلق ٹیکس معلومات حاصل کر کے اسے تحقیقاتی جریدے فیکٹ فوکس سے منسلک صحافی احمد نورانی کو بھیجنے کے الزام میں گذشتہ روز گرفتار کیا گیا تھا۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد صحافی شاہد اسلم کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے 3 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔
اس سے قبل تفتیشی افسر کی جانب سے 7 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی تھی۔ عدالت نے صحافی شاہد اسلم کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں 16 جنوری کو دوبارہ عدالت کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت جاری کردی۔