جج ارشد ملک کئی راز سینے میں چھپا لے گئے

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ احتساب عدالت کے سابق جج کا طرز عمل ادارے کے لیے بدنما داغ کی طرح ہے اور ان کے اقدام سے ایماندار ججز کے سر شرم سے جھک گئے ہیں

پاکستان مسلم لیگ ن کے بانی نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں قید بامشقت کی سزا سنانے والے اور جج ویڈیو اسکینڈل کے اہم کردار احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کرونا وائرس کا شکار ہو کر انتقال کرگئے ہیں۔

ارشد ملک 25 روز سے وفاقی دارالحکومت کے نجی ہسپتال میں زیر علاج اور 2 روز سے وینٹی لیٹر پرتھے۔ ان کی تدفین مندرہ کے گاؤں میں ہوگی۔

یہ بھی پڑھیے

نوے سالہ خاتون کا کیس 50 سال سے مختلف عدالتوں میں زیرسماعت

جج ارشد ملک پر سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنانے کے بعد سے تنقید کی جا رہی تھی۔ لیکن گزشتہ برس متنازع ویڈیو سامنے آنے پرانہیں شدید تنقید اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

جج ارشد ملک کون تھے؟

ارشد ملک نے بطور احتساب عدالت کے جج العزیزیہ اسٹیل ملز کرپشن ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے بانی محمد نواز شریف کو دو برس قبل 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ انویسٹمنٹس سے متعلق دوسرے ریفرنس میں بری کردیا تھا۔

نواز شریف کی صاحبزادی اورمسلم لیگ نون کی نائب صدرمریم نواز ایک پریس کانفرنس کے دوران گزشتہ برس لیگی کارکن ناصر بٹ اور جج ارشد ملک کی ویڈیو سامنے لائی تھیں۔ ویڈیو میں ارشد ملک نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف  فیصلہ دباؤ پر دیا تھا۔

پریس کانفرنس میں مریم نواز نےسزا کو کالعدم قراردے کر نواز شریف کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ بعد میں جج ارشد ملک نے الزامات کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے ویڈیو کو جعلی اور اپنے اور اپنےخاندان کی شہرت خراب کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔

غیرملکی نشریاتی ادارے کے مطابق سپریم کورٹ نے اسلام آباد کی احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی ویڈیو سے متعلق دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ احتساب عدالت کے جج کابیان حلفی دراصل اعترافِ جرم ہے۔

جس میں ارشد ملک نے نواز شریف کے بیٹے سے ملاقات کا اعتراف کیا اور اس پیش رفت کے بعد سابق جج نے اس سے اعلیٰ حکام کو نا ہی آگاہ کیا اور نہ ہی وہ خود عدالتی کارروائی سے الگ ہوئے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ احتساب عدالت کے سابق جج کا طرز عمل ادارے کے لیے بدنما داغ کی طرح ہے اور ان کے اقدام سے ایماندار ججز کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔

سپریم کورٹ نے  ارشد ملک کو احتساب عدالت کےجج کے عہدے سے ہٹاکر او ایس ڈی بنادیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان نے اس معاملے پر 7 رکنی انتظامی کمیٹی بنائی تھی۔

کمیٹی نے تحقیقاتی رپورٹ میں مس کنڈکٹ ثابت ہونے پر ارشد ملک کو ملازمت سے برطرف کر دیا تھا۔ تاہم ارشد ملک نے کمیٹی کے سامنے پیش ہوکر اپنے اوپرلگائے گئے الزامات کو من گھڑت اور جھوٹا قرار دیتے ہوئے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ارشد ملک کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کے باوجود وفاقی حکومت نے اُنہیں اپنے پاس ہی رکھا اور جب سپریم کورٹ کو اس کا علم ہوا تو اُنھوں نے اس پر برہمی کا اظہار کیااور کہا کہ حکومت اس جج کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔

جبکہ ایک موقع پر جج ارشد ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نمائندوں کی جانب سے انہیں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے رشوت کی پیشکش اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی۔ اور بعد میں جج کے عہدے سے استعفیٰ دینے پر بھی مجبور کیا گیا تھا۔

جج ارشد ملک کی رونا سے موت کے بعد پاکستان کی سیاست سے متعلق کئی راز مٹی میں دفن ہو گئے ہیں۔

متعلقہ تحاریر