فواد چوہدری کے جوڈیشل ریمانڈ کے خلاف پولیس کی درخواست منظور

سیشن جج طاہر محمود نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے فواد چوہدری کو جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

رہنما تحریک انصاف فواد چوہدری کے مزید جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنا دیا گیا، اسلام آباد کی مقامی عدالت نے پولیس کی درخواست منظور کرلی ہے۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کے جج طاہر محمود خان نے الیکشن کمیشن کو دھمکیاں دینے کے کیس کی سماعت کی۔اس موقع پر پی ٹی آئی کے اسیر رہنما فواد چوہدری کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ڈاکٹر بابراعوان نے عدالت سے رہنما تحریکِ انصاف فواد چوہدری کی ہتھکڑیاں کھولنے کی استدعا کی جس پرعدالت نے اُن کی ہتھکڑیاں کھولنے کا حکم دیا۔

یہ بھی پڑھیے

سپریم کورٹ بار کا فواد چوہدری کے وقار کی پامالی پر سخت ردعمل کا اعلان

جنرل (ر) باجوہ کی ٹیکس تفصیلات لیک کرنے معاملہ: گرفتار صحافی شاہد اسلم کی ضمانت منظور

پولیس کی جانب سے فواد چوہدری کا جسمانی ریمانڈ مسترد ہونے کا فیصلہ چیلنج کرتے ہوئے استدعا کی تھی کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر فواد چوہدری کا مزید جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم نے فوٹو گرائیمٹری ٹیسٹ اور ریکوریز کرنی ہیں ، عملی طور پر ہمیں ایک دن کا ریمانڈ ملا تھا تفتیش مکمل نہیں ہو سکی۔

عدالت نے پولیس کی اپیل منظور کرتے ہوئے فواد چوہدری کو جسمانی ریمانڈ کے لیے دوبارہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے فواد چوہدری کا جسمانی ریمانڈ نہ دینے اور جوڈیشل ریمانڈ منظور کرنے کا جوڈیشل مجسٹریٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ مجسٹریٹ کا جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرنے کا فیصلہ غیرقانونی ہے، موبائل، لیپ ٹاپ اور دیگر ڈیوائسز سےدیکھناہےبیان کےپیچھے کون ہے،تکنیکی طور پر ہمیں ایک دن کا جسمانی ریمانڈ ملا، ہم نے ٹائم ضائع نہیں کیا ،ایک دن میں جو کام کر سکتے تھے کیا ہے۔

پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری کی ایف آئی اے سے وائس میچ کروا لی گئی ہے، فوٹوگرامیڑک ٹیسٹ ابھی مکمل نہیں ہوا، مکمل کرنا ضروری ہے اور فواد چوہدری سے الیکٹرک ڈیوائسز برآمد کرنی ہیں، پراگریس موجود ہے، ایسا نہیں کہ پولیس نے ریمانڈ میں کچھ نہیں کیا۔

پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ جسمانی ریمانڈ میں صرف وائس میچ کیاگیا ، فوٹوگرامیٹرک ٹیسٹ کے لیے لاہور جاناہے، تفتیشی افسر نے مزید 7 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، جوڈیشل مجسٹریٹ کے فیصلے میں فوٹوگرامیٹرک ٹیسٹ کا ذکر نہیں، تفتیشی افسر کو فواد چوہدری کا فوٹوگرامیٹرک ٹیسٹ ہی درکار ہے، ہماری استدعا ہے کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے فیصلے کو مسترد کیا جائے۔

فواد چوہدری کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ فواد چوہدری جیل میں ہیں،3 دن پہلے درخواست دی ، فواد چوہدری کے منہ پر کپڑا ڈال کر ہتھکڑی لگا کر لایا گیا ،تھانے میں فوادچوہدری کے اہلخانہ کو بخشی خانے میں ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

فوادچوہدری اس وقت اڈیالہ جیل میں ہیں، 3 دن قبل فوادچوہدری سے ملاقات کی اجازت مانگی، ابھی تک نہیں ملی ، پہلی بار دیکھا ملزم کو کپڑا ڈال کر لائے اور وکلاسے ملنےکی اجازت نہیں، فوادچوہدری کو جس طرح لے کر ائے یہ انسانی حقوق کی خلاف وزری ہے۔

دوران سماعت فواد چوہدری کی ڈسچارج کی درخواست پر سرکاری وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا ڈسچارج کی درخواست تب آ سکتی ہے جب ریکارڈ پر شواہد موجود نہ ہوں، فواد چوہدری کے خلاف کافی مواد ریکارڈ پر موجود ہے، استدعا یے کی ڈسچارج کرنےکی درخواست مسترد کی جائے۔

ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ کوئی غیرمتعلقہ شخص میرے دلائل میں خلل نہ ڈالے، آج کل تو یہ سرزمین بے آئین بنا دی گئی ہے،قانون میں ملزم سزا ہو جانے تک معصوم سمجھا جاتا ہے۔

عدالت نے پولیس کی اپیل منظور کرتے ہوئے فواد چوہدری کو جسمانی ریمانڈ کے لیے دوبارہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

سیشن جج نے کہا کہ مجسٹریٹ کا ریمانڈ نا دینے کا فیصلہ قانون طور پر درست نہیں۔

متعلقہ تحاریر