جوڈیشل کمپلیکس میں توڑ پھوڑ اور پولیس پر حملے: پی ٹی آئی کے 316 کارکن گرفتار

اسلام آباد پولیس نے ایف جے سی کے باہر ’توڑ پھوڑ اور پولیس پر حملوں کے الزام میں اب تک پی ٹی آئی کے 316 کارکن گرفتار کرلیے۔

اسلام آباد پولیس نے بدھ کے روز اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے 18 مارچ کو فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس (ایف جے سی) کے باہر پولیس افسران پر مبینہ طور پر حملہ کرنے اور افراتفری پھیلانے کے الزام میں اب تک پی ٹی آئی کے 316 کارکنان کو گرفتار کرلیا ہے۔ کارکنان نے اس کارروائی پر اس وقت عملدرآمد کیا تھا جب عمران خان عدالت میں سماعت کے لیے وہاں پہنچے تھے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کے توشہ خانہ کیس میں پیش ہونے کے لیے جوڈیشل کمپلیکس پہنچے تھے ، جس کے بعد ہفتے کے روز پی ٹی آئی کے کارکنوں اور کیپیٹل پولیس کے درمیان گھنٹوں تک جھڑپیں جاری رہیں۔

یہ بھی پڑھیے

اوباش نوجوانوں سے سی ویو تا دو دریا سڑک کو فیملیز کیلیے نوگوایریا بنادیا

کراچی: گلستان جوہر میں مذہبی اسکالر ’ٹارگٹڈ حملے‘ میں جاں بحق

پرتشدد تصادم میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پی ٹی آئی کے کارکنان نے ایک دوسرے کو پیچھے دھکیلنے کےلیے اینٹی رائٹ گیئر کا استعمال کیا اور مخالف فریقین نے ایک دوسرے پر آنسو گیس کا استعمال کیا۔ پی ٹی آئی نے گاڑیوں کو آگ لگانے کے لیے پٹرول بموں کا استعمال کیا جبکہ پولیس کے خلاف پتھروں بھی کیا۔

اس تمام تر کارروائی کے وجہ سے اسلام آباد پولیس نے عمران اور پی ٹی آئی کے ایک درجن سے زائد رہنماؤں کے خلاف دہشت گردی ایکٹ سمیت دیگر دفعات کے تحت فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) بھی درج کی تھی۔

اسلام آباد پولیس نے اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ "پولیس پر پتھراؤ ، پیٹرول بم حملوں اور توڑ پھوڑ کے الزامات کے تحت پی ٹی آئی کے کارکنان کے خلاف مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔”

ٹوئٹ میں مزید کہا گیا کہ پولیس ٹیمیں مزید گرفتاریوں کے لیے مزید چھاپے مار رہی ہیں اور کیمروں کی مدد سے تمام مشتبہ افراد کی شناخت کا عمل جاری ہے۔

پولیس نے مزید کہا، "دوسرے اضلاع کو پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیے گئے مشتبہ افراد کے بارے میں الرٹ کیا جا رہا ہے تاکہ ان (مشتبہ افراد) کو ان (ان اضلاع کے حکام) کے حوالے کیا جا سکے۔”

اسلام آباد پولیس نے ہفتہ کے افراتفری کے واقعات میں ملوث پائے جانے والے افراد بشمول سرکاری افسران اور تارکین وطن کے خلاف کارروائی کے اپنے پلان کی تفصیل بھی دی۔

پولیس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ "اگر پرتشدد کارروائیوں میں کوئی سرکاری اہلکار ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف محکمہ کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

پولیس نے مزید کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر سرگرم سرکاری ملازمین جو "اشتعال انگیز کارروائیوں” میں ملوث تھے ان کی بھی نشاندہی کی جا رہی ہے تاکہ ان کے خلاف بھی محکمانہ کارروائی کی جا سکے۔

اسلام آباد پولیس نے زور دے کر کہا کہ "اگر نجی تنظیموں اور نجی کمپنیوں کے ملازمین "دہشت گردانہ سرگرمیوں” میں ملوث پائے گئے تو ان کے متعلقہ اداروں کو ان کے خلاف کارروائی کا کہا جائے گا۔

نقصانات کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے اسلام آباد پولیس نے کہا ہے کہ "پرتشدد کارروائیوں کے دوران 58 پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ 12 کاریں، 20 موٹر سائیکلیں اور ایک پولیس چوکی (چیک پوسٹ) کو آگ لگائی گئی”۔

متعلقہ تحاریر