جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر

درخواست گزار مرتضیٰ قریشی نے ان کے خلاف سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے ہیں اور انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔

خیبرپختونخوا بار کونسل کے وکیل مرتضیٰ قریشی نے جمعرات کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف ریفرنس دائر کرتے ہوئے ان کے خلاف انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔

جمعرات کے روز دائر کیے گئے ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ "بعض شواہد کی بنا پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جسٹس محسن اختر کیانی آئین اور ججز کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، اس لیے انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے ہٹایا جائے۔”

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے 1994 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ 23 دسمبر 2015 کو آئی ایچ سی کے جج کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے 

77 سالہ شخص کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا جارہا ہے، بیگم پرویز الہٰی

9 مئی کے واقعات: لاہور ہائیکورٹ کا ملزمان کی شناخت پریڈ 48 گھنٹوں میں مکمل کرنے کا حکم

درخواست گزار نے اپنے دعووں کی تصدیق کے ساتھ "کچھ معتبر ذرائع سے کچھ معلومات” شیئر کی ہیں۔ جن کے مطابق جسٹس محسن اختر کیانی نے مبینہ طور پر بدانتظامی اور ضابطہ اخلاق کی دفعات کی خلاف ورزی کی ہے ، جس کی انکوائری سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز کے ذریعے کی جائے۔

دائر کیے گئے ریفرنس میں الزام لگایا گیا ہے کہ "لیک ویو ہاؤسنگ سوسائٹی کو ہائی کورٹ کے جج چلا رہے تھے، جن کے پاس پروجیکٹ میں بظاہر 18 فیصد شیئرز تھے۔”

دائر ریفرنس کے مطابق "ہاؤسنگ سوسائٹی مجاز اتھارٹی کی طرف سے این او سی حاصل کیے بغیر شروع کی گئی۔ ہاؤسنگ سوسائٹی پروجیکٹ نے 40 سے 50 کروڑ روپے کا بہت بڑا منافع کمایا جسے شیئر ہولڈرز کے درمیان تقسیم کیا گیا۔

دائر کیے گئے ریفرنس کے مطابق جسٹس محسن اختر کیانی نے اپنے اور اپنے خاندان کے اثاثوں کی مالیت 5.6 کروڑ روپے (0.056 بلین) ظاہر کی ہے جبکہ اصل اثاثوں کی مالیت 187.7 کروڑ روپے (1.877 بلین) ہے۔ یعنی ظاہر کیے گئے اور اصل اثاثوں کی مالیت میں 183 کروڑ کا بڑا فرق ہے۔ 183 کروڑ کے اثاثوں پر 24 کروڑ کے ٹیکسز سے بچنے کے لیے اصل اثاثوں کی مالیت کو اداروں سے چھپایا گیا۔

متعلقہ تحاریر