لال مسجد میں ایک اور ڈرامہ، پولیس کی مولانا عبدالعزیز کو گرفتار کرنے کی ناکام کوشش
انگریزی روزنامے مطابق انسدادِ دہشت گردی کے محکمے (سی ٹی ڈی) کی ایک ٹیم مولانا عبدالعزیز سے بات چیت کے لیے لال مسجد گئی تھی۔
اسلام آباد: لال مسجد کے امام مولانا عبدالعزیز کو بدھ کے روز اسلام آباد پولیس نے اس وقت گرفتار کرنے کی کوشش جب وہ ظہر کی نماز کے بعد مسجد سے باہر آئے تھے ، تاہم مسجد طلباء اور محافظوں نے پولیس کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔
پولیس کی جانب مولانا عبدالعزیز کی گرفتاری کی کوشش پر مدرسے طالبات احتجاج کرتے ہوئے باہر آگئیں اور انہوں نے احتجاج کرتے ہوئے جناح ایونیو اور کلثوم پلازہ کے قریب پل سمیت کئی سڑکیں بلاک کر دیں۔
یہ بھی پڑھیے
سکھر ملتان موٹر وے ڈاکوؤں کے ڈیرے، فائرنگ سے 2 شہری جاں بحق، ایک اغوا
یونان کشتی سانحہ: پولیس کی وہاڑی میں کارروائی، ایک اور اہم انسانی اسمگلر گرفتار
تاہم اس سارے واقعے کے دوران علاقے کے لوگ شدید پریشانی میں مبتلا رہے کیونکہ نہ تو پولیس کی جانب سے کوئی خاطرخواہ وضاحت سامنے آئی اور نہ لال مسجد کی انتظامیہ کو مناسب جواب دے سکی۔ پولیس اور مسجد انتظامیہ کے بیانات میں تضاد واضح دکھائی دے رہا تھا۔
لال مسجد اور سابق صدر پرویز مشرف
وفاقی دارالحکومت کے مرکز میں واقع لال مسجد اس وقت شہ سرخیوں کی زینت بنی ، جب جولائی 2007 میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے اس کے خلاف ایک مکمل فوجی آپریشن کیا تھا۔
ڈان نیوز کے مطابق دارالحکومت کی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے محکمے (سی ٹی ڈی) کی ایک ٹیم مولانا عبدالعزیز سے بات چیت کے لیے لال مسجد گئی تھی۔ سی ٹی ڈی حکام کو مولانا عبدالعزیز سے کچھ سوالات کے جوابات درکار تھے۔
مولانا عبدالعزیز گرفتاری سے بچ گئے۔
انتظامیہ کا کہنا تھا کہ مولانا عبدالعزیز ایک مرتبہ سے خود کو لال مسجد میں بطور خطیب تعینات کرنا چاہتے ہیں جبکہ وہ ریٹائر ہوچکے ہیں۔ ان سے یہ بھی سوال کیا جانا تھا کہ کیا انہوں نے لال مسجد کی لائبریری سے ملحقہ پلاٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق "تاہم اہلکار نے یہ واضح نہیں کیا کہ مولانا عبدالعزیز جامعہ حفصہ G-7 میں کیسے پہنچے اور سی ٹی ڈی کی ٹیمیں انہیں کیوں نہیں روک سکیں۔”
اس دوران مولانا عبدالعزیز نے سوشل میڈیا پر اپنا ویڈیو بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے بتایا کہ ظہر کی نماز کی امامت کے بعد لال مسجد سے نکلتے ہی کچھ سرکاری گاڑیاں انہیں گرفتار کرنے آئیں۔
"سی ٹی ڈی کی دو گاڑیوں نے میرا پیچھا کیا اور میری گاڑی کو روکا اور پھر کئی اہلکار باہر آئے اور مجھے گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ہم پر گولی چلائی جس سے لڑائی شروع ہو گئی۔ میں زخمی ہو گیا؛ آپ میری گاڑی کو دیکھ سکتے ہیں لیکن ہم نے اپنی بندوق سے فائر نہیں کیا۔
مولانا عبدالعزیز نے مزید کہا کہ "سی ٹی ڈی کے چار سے پانچ اہلکاروں نے مجھے پکڑ کر نیچے پھینک دیا۔
مولانا عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ "میں زخمی ہوا لیکن خدائی طاقت کی مدد سے میں نے ایک اہلکار کی بندوق چھین لی اور فائرنگ شروع کردی۔ اس دوران بڑی تعداد میں لوگ اکٹھے ہو گئے، جس نے مجھے وہاں سے فرار ہونے کا موقع دیا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ "میں زخمی ہونے کے باوجود جامعہ حفصہ پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔
ایک فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ ان کی کار 7ویں ایونیو پر کلثوم پلازہ پل پر کھڑی ہے جس میں ونڈ اسکرین پر گولیوں کے سوراخ ہیں۔
اس واقعے کے بعد مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ ام حسن کی طرف سے سخت بیان سامنے آیا ہے۔
اہلیہ مولانا عبدالعزیز ام حسن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ "مولانا نے سی ٹی ڈی ٹیم پر کئی راؤنڈ فائر کیے اور جبکہ دوسری جانب سے بھی کراس فائرنگ کی گئی۔ انہیں سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے اس وقت پکڑ لیا جب ان کی AK-47 میں گولیاں ختم ہو گئیں۔ تاہم وہ آزاد ہونے میں کامیاب ہو گیا اور اہل علاقہ کی مدد سے G-7 میں جامعہ حفصہ پہنچ گیا۔
اپنے ویڈیو پیغام میں ام حسن نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مدد کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس موقع پر خاموش رہنا کسی بھی صورت درست نہیں۔
دوسری جانب جامعہ حفصہ کی طالبات نے جناح ایونیو سمیت سڑکیں بلاک کرکے احتجاج کیا۔ اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ حکام نے ان کا احتجاج ختم کرانے کے لیے کئی مرتبہ بات کرنے کی کوشش کی۔
احتجاج کے دوران مدرسے کی طالبات نے خواتین کانسٹیبلوں کو بھی لاٹھیوں سے مارا۔ تاہم شام تک پولیس اور انتظامیہ نے تمام سڑکوں کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
اسلام آباد پولیس کی جانب سے مظاہرین میں سے کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ تاہم بدھ کی رات گئے مولانا عبدالعزیز کے تین محافظوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی، جنہیں سی ٹی ڈی نے موقع سے گرفتار کیا تھا۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے، کیپٹل پولیس کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ مولانا کی گاڑی پر فائرنگ کے نشانات ضرور ہیں مگر یہ تمام گولیاں گاڑی میں موجود شخص کی طرف سے اندر سے فائر کی گئیں تھیں۔