شیریں مزاری کیس: اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعظم کو انتباہ جاری کردیا

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر حکومت کا لاپتا افراد کے معاملے میں بہتری لانا چاہتی ہے تو افراسیاب خٹک جیسے افراد کو لاپتہ افراد کے کمیشن کا حصہ بنائیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ حکومت لاپتہ افراد کو بازیابی کے لئے اقدامات کرے بصورتِ دیگر وزیر اعظم جواب دہ ہوں گے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیے

لاہور کی مقامی عدالت میں عمران خان کے خلاف بغاوت کے مقدمے کے لیے درخواست دائر

ڈاکٹر شیری مزاری اور ان کی جانب سے وکیل فیصل چودھری عدالت پیش ہوئے۔ عدالت نے دریافت کیا کہ کیا کیس سے متعلق کمیشن اور اسپیکر قومی اسمبلی کی رپورٹ آ گئی ہے؟ جس پر وکیل فیصل چودھری نے بتایا کہ اسپیکر کی رپورٹ متعلقہ نہیں تاہم کمیشن کی رپورٹ ابھی آنی ہے۔

چیف جسٹس کا اس موقع پر کہنا تھاکہ اسلام آباد ہائی کورٹ لاپتہ افراد کے کیسز وفاقی کابینہ کو بھجواتی رہی ہے تاہم وہاں سے اس معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ وفاقی دارالحکومت میں لوگ محفوظ نہیں ہیں، انسانی حقوق کے تحفظ کرنے والوں کو ریاست پسند نہیں کرتی۔

عدالت عالیہ نے شیریں مزاری کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ کلاسک کیس ہے لیکن وفاقی دارالحکومت میں شہریوں کے حقوق کا تحفظ نہیں ہو رہا ، آپ نے اگر ان تمام معاملات کو دیکھا ہوتا تو تشدد کے الزامات کا معاملہ سامنے نہ آتا۔

علدالت عالیہ کا کہنا تھاکہ اگرعلی وزیر کا کیس اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں لیکن وہ دو سال سے زیرحراست ہیں، علی وزیر کے حلقے کے افراد کو پارلیمنٹ میں نمائندگی سے محروم رکھا جا رہا ہے، جو بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، پی ٹی ایم کے کیس میں بغاوت کا کیس بنا اس وقت ہم نے کہا تھا اس عدالت کے دائرہ اختیار میں بغاوت کا کیس نہیں بنے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جو طاقت اور اختیار میں ہوتا ہے وہ اسی پولیس کو استعمال کرتا ہے پھر حزب اختلاف میں آکر اسی کو برا بھلا کہتا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کوئی سول چیف ایگزیکٹو کیسے کہہ سکتا ہے کہ وہ لاچار یا بےبس ہے۔

عدالت انویسٹی گیشن نہیں کریگی نہ یہ اس عدالت کا کام ہے،  انویسٹی گیشن ایگزیکٹو کا کام ہے اور انہوں نے ہی کرنا ہے ، آپ کہتے ہیں کہ آپ خود بھی متاثر رہے تو آپکی حکومت کو تو زیادہ کام کرنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر حکومت کا لاپتا افراد کے معاملے میں بہتری لانا چاہتی ہے تو افراسیاب خٹک جیسے افراد کو لاپتہ افراد کے کمیشن کا حصہ بنائیں۔

عدالت عالیہ کا کہنا تھا کہ شہباز گل کیس میں بھی تشدد کا الزام ہے اس کے علاوہ بھی کیسز پہلے سے تھے آپ کا کام ہے ان کا جائزہ لیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت ہر معاملے پر کمیٹیاں بنانے پر یقین نہیں رکھتی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے امید ظاہر کی کہ 9 ستمبر سے پہلے لاپتہ افراد بازیاب ہو جائیں گے، بصورتِ دیگر وزیراعظم اس معاملے پر جوابدہ ہوں گے ، عدالت نہیں چاہتی کہ معاملات اس حد تک پہنچیں۔

عدالت نے کیس کی سماعت دو ہفتے تک ملتوی کردی۔

متعلقہ تحاریر