خاتون جج دھمکی کیس ، عدالت کا عمران خان کے خلاف دہشتگردی کی دفعہ ختم کرنے کا حکم
عمران خان کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے فل کورٹ بینچ نے فیصلہ سنا دیا ہے ، بینچ کی سربراہی چیف جسٹس اطہر من اللہ کررہے تھے۔
خاتون جج کو دھمکی دینے کا معاملہ ، عمران خان کے خلاف دہشتگردی کی دفعات ختم ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلہ سنا دیا۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس اطہر من اللہ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا۔ عدالت عالیہ نے عمران خان کے خلاف مقدمہ میں سے دہشتگردی کی دفعات ختم کرنے کا حکم دے دیا۔
یہ بھی پڑھیے
شہباز گل کی ضمانت بعداز گرفتاری اسلام آباد ہائی کورٹ سے منظور
شہری کی بازیابی کا معاملہ، اسلام آباد ہائی کورٹ کا آئی جی کو سخت حکم
عمران خان کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے فل کورٹ بینچ نے فیصلہ سنا دیا ہے ، فل کورٹ بینچ کی سربراہی چیف جسٹس اطہر من اللہ کررہے تھے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ دیگر دفعات پر متعلقہ فورم پر کارروائی جاری رہے گی۔
عدالت کارروائی کے دوران عمران خان کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صرف تقریر کرنے پر یہ دفعات نہیں لگائی جاسکتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے مزید 7 دفعات مقدمے میں لگا رکھی ہیں ، حکومت اپنی درخواست میں ترمیم کرے۔
عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ دہشتگردی کی دفعات لگانے کے لیے کچھ بنیادی عناصر کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ موجودہ مقدمے میں وہ عناصر موجود نہیں ہیں۔ دہشتگردی کے مقدمے کے لیے فضا کا ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ صرف تقریر کی بنیاد پر دہشتگردی کی دفعات نہیں لگائی جاسکتین۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ اگر آپ تقریر پر ایسے پرچے کاٹیں گے تو ایک فلڈ گیٹ کھل جائے گا۔
چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ عمران خان کی پوری تقریر میں تھریٹ یا نقصان پہنچانے کی بات کی گئی؟ کیا آئی جی یا ڈی آئی جی نے کوئی کمپلینٹ فائل کی ہے ؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بادی النظر میں اس کیس میں ان دفعات میں سے ایک دفعہ بھی نہیں لگتی ، دہشت گردی کے مقدمہ اندراج کا غلط استعمال تو ہوتا رہا ہے ، جب آپ کہتے ہیں تقریر کے علاوہ تفتیش میں کچھ نہیں آیا تو ڈیزائن تو ختم ہو گیا، آپ نے خود تسلیم کیا ہے کہ تقریر کے علاوہ ان کے خلاف کچھ نہیں۔
عدالت نے پراسیکیوٹر سے جے آئی ٹی کی اس کیس سے متعلق رائے دریافت کی۔جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ جےآئی ٹی کی یہی رائے ہے کہ اس کیس میں دہشت گردی کی دفعہ بنتی ہے۔
چئیر مین تحریک انصاف کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ عمران خان نے خاتون جج کے خلاف ایکشن لینے کی بات کی جو لیگل ایکشن کی بات تھی، آئی جی پولیس اور ڈی آئی جی پر بھی کیس کرنے کی بات کی گئی، درخواست متاثرہ افراد کی طرف سے آنی چاہیے تھی کہ وہ اس بیان سے خوفزدہ ہوئے۔وکیل نے کہا کہ جو درخواست دائر کی گئی وہ کمپیوٹر ٹائپ درخواست ہے جو تحمل سے لکھی گئی جس کے پیچھے کوئی ماسٹر مائنڈ ہے۔ان کا مؤقف تھا کہ عمران خان نے ایک ریلی میں بات کی جس پر مقدمہ بنا، تقریر پر دہشت گردی کا مقدمہ انسدادِ دہشت گردی قانون کو مذاق بنانے جیسا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ دہشت گردی کے قانون کی تشریح کر چکی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ سماعت پر ریمارکس دیے تھے کہ عمران خان کی تقریر نامناسب ضرور تھی مگر دہشت گردی کی دفعہ کیسے لگ گئی؟ یہ بہت سنجیدہ نوعیت کا الزام ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے آج آج فریقین کے دلائل سننے کے بعد بعد درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو کچھ دیر بعد سنا دیا۔جس میں عدالت نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات ختم کر دیں تاہم عدالت میں دیگر دفعات کے تحت مقدمہ کی کارروائی جاری رہے گی۔