پی ٹی آئی نے جلسہ کرنا ہے تو انتظامیہ کو نئی درخواست دے، اسلام آباد ہائی کورٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت ملتی ہے تو تحریک انصاف کی انتظامیہ یقین دہانی کرائے کہ سڑکیں بلاک نہیں ہوں گی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کو جلسے کی اجازت کے لیے انتظامیہ کو نئی درخواست دینے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ عدالت کوئی مقام تجویز نہیں کر سکتی۔ یہ انتظامیہ کا کام ہے کہ ڈی چوک میں اجازت دینی ہے یا ایف نائن پارک میں۔پی ٹی آئی یقینی بنائے کہ شاہراہیں بند نہیں ہونگی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے پاکستان تحریک انصاف آصف اور تاجروں کی درخواستوں کی سماعت کی۔ دونوں درخواستیں گزشتہ روز یکجا کر دی گئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیے
اسلام آباد میں ان ڈرائیور کے رائڈر کی خاتون کے ساتھ مبینہ ہراسانی
سی ڈی اے کا اعظم سواتی کے فارم ہاؤس میں غیر قانونی تعمیرات گرانے کا حکم
پاکستان تحریک انصاف کی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ اسلام آباد میں دھرنے و جلسے کے لیے اجازت کے حوالے سے مقامی انتظامیہ کو احکامات جاری کیے جائیں۔ جب کہ اسلام آباد کے تاجروں کی جانب سے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ و دھرنے کے سبب راستوں کی بندش کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار علی نواز اعوان شہر سے باہر ہیں، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کی درخواست 3 نومبر کی تھی جو پہلے ہی غیر موثر ہو چکی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی انتظامیہ کو نئی درخواست دے۔ اگر پھر بھی مسئلہ حل نہ ہو تو نئی پٹیشن بھی دائر کر سکتے ہیں۔ اب تو وہ معاملہ ہی ختم ہو چکا ہے جس حوالے سے درخواست دائر کی گئی تھی۔
جس پر معاون وکیل نے کہا کہ ہم انتظامیہ کو آج ہی درخواست دے دیتے ہیں۔ عدالت منگل تک سماعت ملتوی کردے۔ اس کیس میں بابر اعوان خود پیش ہوں گے۔
عدالت نے کہا کہ پی ٹی آئی نے جلسہ کرنا ہے تو ڈی سی کو نئی درخواست دے سکتے ہیں۔ انتظامیہ اگر اجازت دے گی تو یقینی بنائیں شاہراہیں بند نہیں ہونگی۔ عام لوگوں کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہییں۔ 2014 کے دھرنوں میں جو کنٹینر رکھے گئے تھے تو ان کو اب ادائی کی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ احتجاج کرنا سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں کا حق ہے۔ عام شہریوں اور پٹیشنرز تاجروں کے بھی حقوق ہیں جو متاثر نہیں ہونے چاہیں۔عدالت نے نے پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جی ٹی روڈ، موٹر وے اور دیگر شاہراہیں بلاک کیں۔ آپ کو بھی ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ آپ نے جی ٹی روڈ بلاک کردیا اور اسلام آباد اور راولپنڈی کا رابطہ منقطع کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کوئی مقام تجویز نہیں کر سکتی۔ ہم نے صرف یہ ڈائریکشن دینی ہے کہ آپ ان کی درخواست پر قانون کے مطابق فیصلہ کریں۔یہ انتظامیہ کا کام ہے وہ بتائے کہ ڈی چوک میں اجازت دینی ہے یا ایف نائن پارک میں۔ جلسے کے لیے قواعد و ضوابط اور شرائط انتظامیہ ہی سے طے ہونی ہیں۔ سپریم کورٹ سے بھی اس حوالے سے حکم آ چکا ہے۔
اچھی جسٹس نے عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ کے حوالے سے کہا کہ خفیہ اداروں کی رپورٹس کے مطابق عمران خان پر حملے کے خدشات ہیں۔ حکومت اور ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ اسے مدنظر رکھے۔
عدالت نے مقدمہ کی سماعت 22 نومبر تک ملتوی کردی۔









