جنرل (ر) باجوہ کی ٹیکس تفصیلات لیک کرنے معاملہ: گرفتار صحافی شاہد اسلم کی ضمانت منظور

عدالت نے شاہد اسلم کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرتے ہوئے ، پچاس ہزار روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے خاندان کے اثاثوں سے متعلق معلومات لیک کرنے کے الزام میں گرفتار صحافی شاہد اسلم کی ضمانت کی درخواست منظور کرلی۔

اسیر صحافی شاہد اسلم کی ضمانت کی درخواست کی سماعت اسپیشل جج سینٹرل اسلام آباد اعظم خان کی عدالت میں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیے

شیخ روحیل اصغر دھوتی کا معاملہ پی اے سی میں لے آئے، چیئرمین کا سخت ایکشن

صحافی شاہد اسلم کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد، جوڈیشل ریمانڈر پر جیل منتقل

عدالت نے شاہد اسلم کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرتے ہوئے ، پچاس ہزار روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

اس سے قبل عدالت نے انھیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا جبکہ اس مقدمے کے پراسیکیوٹر نے ملزم کے  چار روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا اس بنیاد پر کی تھی کہ ملزم صحافی نے تفتیشی افسر کو اپنے زیر استعمال لیپ ٹاپ کا پاسورڈ نہیں دیا۔

صحافی شاہد اسلم کو اس سے قبل سنیچر کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے حوالے کیا گیا تھا۔

صحافی شاہد اسلم کو پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے اہلِخانہ کے ٹیکس ریکارڈز کی معلومات لیک کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

گزشتہ سماعت پر پراسیکیوٹر نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہد اسلم کو ایف بی آر سے معلومات مل رہی تھیں جو وہ صحافی احمد نورانی کو دے رہے تھے۔

پراسیکوٹر نے سوال کیا کہ شاہد اسلم اپنے لیپ ٹاپ اور موبائل کا پاسورڈ کیوں نہیں دے رہے؟۔

جس پر عدالت نے ریمارکس دیے تھےکہ بطور صحافی انفارمیشن لینا غلط نہیں۔

سرکاری وکیل نے کہا تھاکہ ایف بی آر کی انفارمیشن لیک کرنے والے ملزمان نے شاہد اسلم کا بار بار نام لیا ہے۔

ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت سب سے  پہلے اس بات کا تعین کرے کہ صحافی شاہد اسلم کو قانون کے تحت گرفتار کیا بھی گیا ہے یا نہیں۔ اگر شاہد اسلم کو قانون کے برعکس گرفتار کیا گیا ہے تو یہ اغوا کا کیس ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہنا تھا کہ کیا ’کیس میں ملزمان کے بیان کو مصدقہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ شاہد اسلم کو محض بیان کی بنیاد پر گرفتار کرنا بالکل غلط ہے۔اگر ایف آئی اے کے پاس کوئی ثبوت ہے تو عدالت کے سامنے پیش کرے۔ شاہد اسلم پر لگائی گئی چاروں دفعات نہیں بنتیں، شک کی بنیاد پر گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔

صحافی شاہد اسلم کا عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ڈیٹا تو ہر صحافی کے پاس ہوتا ہے، اس کے بغیر صحافت نہیں ہو سکتی لیکن میں نے یہ کسی کو منتقل نہیں کیا۔

ایف آئی اے کی جانب سے اس حوالے سے اس سے قبل ایف بی آر کے چند اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی اور ان اہلکاروں سے تفتیش کی جا رہی ہے جبکہ اسی ضمن میں صحافی شاہد اسلم کو شاملِ تفتیش کیا گیا ہے۔

ایف بی آر کے ان اہلکاروں میں لاہور کے ریجنل ٹیکس آفس کے سپروائزر ارشد علی قریشی، سپروائزر کارپوریٹ ٹیکس آفس شہزاد نیاز اور یو ڈی سی آر ٹی او لاہور محمد عدیل اشرف شامل ہیں جن پر یہ الزام ہے کہ انھوں نے یہ تفصیلات ’غیر متعلقہ افراد کو منتقل کی تھیں۔‘

ایف آئی آر میں یہ تفصیل بھی درج کی گئی ہے کہ شہزاد نیاز نے جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کی اہلیہ کے ٹیکس ریکارڈ تک رسائی حاصل کی اور پھر اسے ارشد علی قریشی سے شیئر کیا۔ جبکہ عدیل اشرف نے سابق آرمی چیف کی بہو ماہ نور صابر کے ٹیکس ریکارڈ تک رسائی حاصل کی اور اسے ارشد علی قریشی کے ذریعے شہزاد نیاز سے شیئر کیا اور پھر اسے غیر متعلقہ افراد سے بھی شیئر کیا۔

صحافی شاہد اسلم کو ایف بی آر سے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے اہلخانہ سے متعلق ٹیکس معلومات حاصل کر کے اسے تحقیقاتی جریدے فیکٹ فوکس سے منسلک صحافی احمد نورانی کو بھیجنے کے الزام میں چند  روز گرفتار کیا گیا تھا۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد صحافی شاہد اسلم کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے  3 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا ۔

متعلقہ تحاریر