محنت کش خواتین کے مجسموں کی مدد کیلئے مردوں کے مجسمے نصب کرنے کا مطالبہ

خاتون صحافی انیلہ خالد نے پشاور پریس کلب کے باہر نصب محنت کش خواتین کے مجسموں کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے ازرائے مذاق مطالبہ کیا کہ ان کے ہمراہ مردوں کو بھی کام پر لگایا جائے، بوڑھی عورت کے ہمراہ بیٹا جبکہ جوان لڑکی کے ساتھ اس کے شوہر کا مجسمہ لگایا جائے

خاتون صحافی انیلہ خالد نے پشاور پریس کلب کے باہر نصب محنت کش خواتین کے مجسموں کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے ازرائے مذاق مطالبہ کیا کہ ان کے ہمراہ مردوں کو بھی کام پر لگایا جائے۔

انیلہ خالد نے ٹوئٹر ہینڈل سے محنت کش خواتین کے مجسموں کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ پشاور پریس کلب کئی دہائیوں سے ان خواتین کو کام پر لگایا ہوا ہے جبکہ انہیں چھٹی بھی نہیں ملتی ہے ۔

یہ بھی پڑھیے

لاہور اور اسلام آباد میں عورت مارچ پر پابندی؛ ہیومن رائٹس کمیشن کی شدید مذمت

انیلہ نے ازرائے مذاق لکھا کہ پشاور پریس کلب میں یہ دو خواتین کئی دہائیوں سے کپڑے دھونے اور پہاڑی علاقے میں پانی لانے پر لگائی گئی ہیں، جنہیں ایک دن ایک لمحہ بھی فراغت نہیں ملتی ۔

خاتون صحافی نے کہا کہ یوم نسواں  کے موقع  اور دستور پر یہ کہنے کی جسارت کررہی ہوں کہ ان کے ہمراہ  دو مردوں کے مجسمے شامل کرکے ان کو بھی خواتین کے ہمراہ کام پر لگایا جائے ۔

خاتون صحافی انیلہ خالد ازرائے مذاق کہا کہ بوڑھی عورت کے ساتھ ان کے بیٹے اور نوجوان خاتون کے ہمراہ ان کا شوہر ہو جوکہ مدد کیلئے ہاتھ آگے بڑھائے ہوئے ہو۔

نجی ٹی وی چینل آج نیوز سے منسلک خاتون صحافی فرزانہ علی نے انیلہ خالد کی ٹوئٹ کے جواب میں لکھا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک خاتون کے ہاتھ میں قلم اور دوسری کے ہاتھ میں کیمرہ ہوتا ۔

صحافی فرزانہ علی نے اپنے ٹوئٹر پیغام  میں کہا کہ خواتین کے ہاتھ میں قلم اور کیمرے ہوتا مگر کیا کریں پڑھے لکھے مردوں کو بھی لگتا ہے کہ عورت صرف اسی کام کے لئے پیدا کی گئی ہے۔

راحیل احمد نامی ایک صارف نے لکھا کہ جس وقت یہ پانی بھر رہی اور کپڑے دھو رہی بیٹا بھینس بکری چرا رہا اور شوہر کلہاڑی سے لکڑیاں کاٹ رہا ہے تاہم آپ کی رائے اچھی ہے ۔

صارف نے کہا کہ ہمارا معاشرہ مرد و خاتون دونوں کی اپنی اپنی ذمہ داری سے استوار ہے۔ آپ کی رائے اچھی ہے، اللہ نے جوڑے بنائے ہیں تو یہاں بھی جوڑے ہی ہونے چاہییں۔

مراد علی نامی صارف نے کہا کہ دیکھا جائے تو پختون معاشرے میں اکثر مرد ہی گھر کی کفالت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ وہ باہر جاکر محنت مزدوری کرکے گھر کے اخراجات پورے کرتے ہیں ۔

مراد علی نامی ٹوئٹر ہینڈل سے کہا گیا کہ اگر ایسے میں عورت ان کا ہاتھ بٹھاتی ہے تو یہ اچھی بات ہے۔ آپ نے تصویر کے ایک اینگل کو کور کیا دوسرے اینگل میں مرد اپنی ڈیوٹی نبھا رہا ہے۔

متعلقہ تحاریر