نگراں حکومت نے سابقہ کے پی کے حکومت کے دعوے پر مہر تصدیق ثبت کردی

وفاقی نے این ایف سی ایوارڈ کے 240 ارب روپے روک رکھے ہیں، عید سے قبل سرکاری ملازمین کو تنخواہیں نہیں دی جاسکتیں، مشیر خزانہ حمایت اللہ کی پریس کانفرنس

خیبرپختونخوا کے نگراں وزیراعلیٰ کے مشیر خزانہ خیبرپختونخوا حمایت اللہ نے تحریک انصاف کی سابقہ صوبائی حکومت کے دعوؤں پر مہرتصدیق ثبت کردی۔

مشیرخزانہ حمایت اللہ کا کہنا ہے کہ  وفاقی حکومت نے صوبے کے این ایف سی ایوارڈ کے 240 ارب روپے روکے ہوئے ہیں، عید سے قبل سرکاری ملازمین کو تنخواہیں نہیں دی جاسکتیں لہٰذا ملازمین کو تنخواہیں عید کے بعد معمول کے مطابق دی جائیں گی۔

یہ بھی پڑھیے

جوڈیشل کمیشن کی جسٹس مسرت ہلالی کو پی ایچ سی کا باقاعدہ چیف جسٹس بنانے کی سفارش

پشاور:قومی اسمبلی کے تین حلقوں پر 30 اپریل کا ضمنی انتخابات کا شیڈول معطل

 پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نگراں حکومت کے مشیر خزانہ حمایت اللہ نے کہا کہ جنرل فنانشل رولز میں ہے کہ مہینے کے آخری 10 ایام میں اگر کوئی تہوار آتا ہے تو سرکاری تنخواہ ایڈوانس دی جاتی ہے، اس معاملے پر کابینہ کا اجلاس بلایا گیا جس میں متعلقہ حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ صوبہ 14 ارب کا اوو ڈرافٹ ہے اور  اس وقت تنخواہوں کی کُل رقم 48 ارب روپے ہے۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ صوبے کے موجودہ معاشی حالات میں ممکن نہیں ہے کہ سرکاری ملازمین کو عید سے پہلے تنخواہیں دیں جب کہ سرکاری ملازمین کی ایسوسی ایشنز نے بھی کہا کہ ایڈوانس تنخواہ کے بعد والی مہینے میں کافی مالی مُشکلات کا سامنا ہوتا ہے جس کی بنیاد پر تنخواہیں اگلے مہینے میں معمول کے مطابق ہی ریلیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ  بجلی کے خالص منافع کی مد میں 62 ارب روپے کے بقایاجات ہیں جب کہ این ایف سی کی مد میں 21 ارب روپے وفاق کے ذمے واجب الادا ہیں ، اس طرح سیلاب کے 10 ارب روپے، آٹے کی مد میں 20 ارب روپے، آئی ڈی پیز کی مد میں 17ارب روپے یوں مجموعی طور 90 ارب روپے کا خلا ہے جو وفاق سے عدم ادائیگی کے باعث پیدا ہوا ہے۔

انہوں نے کہاکہ سابقہ فاٹا کے الحاق شدہ اضلاع کا این ایف سی ایوارڈ میں 5.1فیصد حصہ بنتا ہے جوکہ  240 ارب روپے ہے لیکن وفاقی حکومت نے اس سال ان 240 ارب روپے میں سے خیبرپختونخوا کیلیے 115 ارب روپے کا بجٹ رکھا ہے اور اس میں سے بھی صرف 55 ارب روپے آئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ فاٹا کے ضم شدہ اضلاع کے اخراجات بھی صوبے کو اٹھانے پڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے صوبہ مالی سامئل کا شکار ہے۔

متعلقہ تحاریر