پشاور ہائیکورٹ کا سویلین کے ملٹری ٹرائل کے معاملے پر بے باک موقف سامنے آگیا

پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ابراہیم نے سوال کیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت شہریوں کے مقدمات کیسے چلائے جاسکتے ہیں؟۔ جج نے پوچھا کہ عام شہریوں کے مقدمات کیسے چلائے جا سکتے ہیں جہاں کورٹ مارشل ہو

پشاور ہائیکورٹ نے عام شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کیلئے آئین کی تشریح کی ضرورت پر زور دیتےہوئے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت کیس کیسے چلائے جا سکتے ہیں؟۔

پشاور ہائیکورٹ کے جج نے ریمارکس دئیے ہیں کہ حساس فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث ملزمان کے مقدمات کی فوجی عدالتوں میں کیس چلانے کے لیے آئین کی تشریح کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیے

9 مئی کے منصوبہ سازوں اور ماسٹر مائنڈز کے گرد قانون کا گھیرا تنگ کیا جائے گا، آرمی چیف

جسٹس اشتیاق ابراہیم اورجسٹس صاحبزادہ اسد اللہ پر مشتمل ڈویژن بنچ فوجی تنصیبات پر حملوں کے ملزمان کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کر رہا تھا۔

دوران سماعت جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دئیے کہ آرمی آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں تو کورٹ ماشل ہوتا ہے، سویلین کے کیسز آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کیسے چلائے جاسکتے ہیں؟۔

پشاور ہائیکورٹ میں دائر ایک  درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ہونے والے پرتشدد واقعات کے مقدمات میں نامزد 7 ملزموں کو ملٹری کے حوالے کیا گیا ۔

وکیل درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ سویلین کے مقدمات ملٹری کورٹ میں نہیں چلائے جاسکتے ہیں۔ سویلین کے مقدمات ملٹری کورٹ میں چلانے کے لیے ایکٹ میں ترمیم کرنا ہوگی۔

یہ بھی پڑھیے

اعتزاز احسن نے 9 مئی کا واقعات کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دے دیا

درخواست میں کہا گیا ہے کہ مقدمات میں آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن 59 اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 3 کو شامل کیا  ہے، سویلین  کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات غیر قانونی ہے۔

درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات بنیادی انسانی حقوق  اور  بین الاقوامی  قوانین کی  خلاف ورزی ہے۔ آئین کے تحت سویلین کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہیں ہوسکتا ۔

درخواستگزار کے وکیل کے مطابق 23 ویں ترمیم کے بعد سویلین کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہیں ہوسکتا۔سرکاری وکیل نے دوران سماعت کہا کہ پہلے ایف آئی آر میں آرمی ایکٹ شامل نہیں ہے۔

جسٹس ابراہیم نے سوال کیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت شہریوں کے مقدمات کیسے چلائے جا سکتے ہیں؟۔ جج نے پوچھا کہ عام شہریوں کے مقدمات کیسے چلائے جا سکتے ہیں جہاں کورٹ مارشل ہو۔

یہ بھی پڑھیے

پی ٹی آئی کے سینیٹرز کی 9 مئی کے پرتشدد واقعات کی مذمت مگر پارٹی نہ چھوڑنے کا اعلان

جسٹس ابراہیم نے ریمارکس دئیے کہ یہ کیسز آئین کی تشریح کے متقاضی ہیں۔ ان مقدمات میں آئین کی تشریح کی ضرورت ہے۔ فریقین تیاری کرلے، 13 جون کو کیس دوبارہ سنیں گے۔

یاد رہے کہ  عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کو ہونے والے پرتشدد واقعات میں ملوث افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں کیس چلانے کا اعلان کیا گیا جس میں متعدد افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے ۔

نو مئی کو ہونے والے پر تشدد واقعات کے تناظر میں ان واقعات کی منصوبہ بندی کے الزام میں چئیرمین پی ٹی آئی کے خلاف بھی مقدمہ فوجی عدالت میں چلائے جانے پر غور کیا جا رہا ہے۔

متعلقہ تحاریر