ہم بحیثیت قوم پاگل پن کی حد تک قدامت پسند ہو چکے ہیں، مستنصر حسین تارڑ

 اچھا لگے یا برا لیکن ہم نے اقوام عالم میں اپنی عزت گنوادی ہے،  ’پاکستان زندہ باد اور یہ ملک تاقیامت رہے گا‘ کے کھوکھلے نعرے رہ گئے ہیں،50 سال پہلے یہ مذہب نہیں تھا، اچانک خدا حافظ بدل کر  اللہ حافظ ہو گیا، لاہور لٹریچر فیسٹیول میں گفتگو

اردو کے شہرہ آفاق  ناول  اور سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ  نے کہا ہے کہ  ہم بحیثیت قوم پاگل پن کی حد تک   قدامت  پسند  ہو چکے ہیں،   اچھا لگے یا برا لیکن ہم نے اقوام عالم میں اپنی عزت گنوادی ہے،  ’پاکستان زندہ باد اور یہ ملک تاقیامت رہے گا‘ کے کھوکھلے نعرے رہ گئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ50سال کے عرصے میں مذہب اور زبان تبدیل ہوجاتی ہے، 50 سال پہلے یہ مذہب نہیں تھا، اچانک خدا حافظ بدل کر  اللہ حافظ ہو گیا۔

یہ بھی پڑھیے

نوجوان نے سندھی ادب کا 7 جی بی کا ڈیٹا انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کردیا

ہمدرد فاؤنڈیشن میں ’’سیاست پاکستان میں زوال اخلاق‘‘ کے موضوع پر فکری سیمینار

الحمرا آرٹس کونسل میں منعقدہ لاہور لٹریچر فیسٹیول کی پہلی نشست میں گفتگو کرتے ہوئے مستنصر حسین تارڑ نے کہا کہ کچھ دن پہلے الحمرا آرٹ کونسل کی جس نشست پر جاوید اختربراجمان تھے انہیں اس نشست پر بیٹھتے ہوئے شرم محسوس ہورہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ  جاوید اخترنے اسٹیج سے جو کچھ کہا اس سےانہیں  بے چینی ہوئی لیکن  وہ انہیں اہمیت کے قابل نہیں سمجھتے۔”کاش میں وہاں ہوتا (جب جاوید اختر نے بیان دیا)  میں جاوید کو اچھی طرح جانتا ہوں لیکن یہ اس پر بحث کرنے کی جگہ نہیں ہے۔ جب  مجھ سے جاوید اختر کے بیان پر تبصرے کیلیے کہا گیا تو میں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ میں انہیں اتنا اہم نہیں سمجھتا کہ ان کی بات کا جواب دیا جائے“۔

مستنصر حسین تارڑ نے کہاکہ ہر سال ادب کے نوبل انعام کے اعلان کے وقت وہ خود فیصلہ کرنے کے لیے فاتح کا کوئی نہ کوئی کام پڑھتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ”نوبل انعام پانے والے 10  میں سے  چھ یا سات میری سمجھ سے باہر ہیں، ایک بالکل میرے جیسا ہے اور میں کم از کم دو یا تین سے بہتر ہوں۔ نوبل انعام کے لیے آپ کو ایک نظام اور ایک گروپ کی ضرورت ہے اور وہ بھی ہماری طرح ہیں جہاں سفارشات اور حوالہ جات بھی کام کرتے ہیں“۔

انہوں نے مزید کہاکہ”یہ آف دی ریکارڈ ہے۔ مجھے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا لیکن میں جانتا ہوں کہ مجھے یہ نہیں ملے گا۔ نوبل انعام کے لیے وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ آپ اپنے معاشرے کے کتنے خلاف ہیں اور میں ایسا نہیں کر سکتا“۔

تاہم  مستنصر نے خود نشاندہی کی کہ پاکستانی معاشرہ اس قدر بنیاد پرست ہوچکا ہے کہ ایک مصنف کو اس کی تحریر پر کوڑے مارے جاسکتے ہیں  ۔انہوں نے کہاکہ”پاکستان کبھی دنیا کا سنہرا اور خوبصورت ملک تھا۔ ایک وقت تھا جب حکومت تحریروں پر ردعمل ظاہر کرتی تھی اور مجھ پر پی ٹی وی میں ڈیڑھ سال کی پابندی لگا دی گئی تھی جو میرا واحد پیشہ تھا لیکن لوگ ہماری تعریف کرتے تھے،اب دور بدل چکا ہے   ،حکمرانوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ ان کے خلاف کیا لکھتے ہیں لیکن معاشرہ اس قدر قدامت پسند ہو چکا ہے کہ وہ لکھنے والے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے

جو کہ کہیں زیادہ خطرناک ہے“۔

ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے مستنصر نے کہا کہ ان کی کتاب’نکلے تیری تلاش میں‘ میں صادقین کے خاکے تھے لیکن کچھ سال پہلے پبلشر نے کہا کہ خاکے اب شائع نہیں ہو سکتے۔”میں نے اسے بتایا کہ خاکے 40 سال سے شائع ہو رہے ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ چیزیں بدل گئی ہیں“۔

صورتحال کے بارے میں مزید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مستنصر حسین تارڑ نے کہاکہ”ہم بحیثیت قوم پاگل پن کی حد تک   قدامت  پسند  ہو چکے ہیں ، ایک تخلیقی مصنف کو اپنے آپ کو بچانے کے لیےبینترے بازی سے کام لینا پڑتا ہے “۔

انہوں نے اس تصور کو مسترد کر دیا کہ گھٹن زدہ معاشروں سے عظیم ادب پیدا ہوتا ہے۔انہوں نے کہاکہ” چاہے ہمیں اچھا لگے یا نہ لگے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہم نے اقوام عالم میں اپنی عزت گنوادی ہے ۔ اب صرف پاکستان زندہ باد اور یہ قیامت تک زندہ رہے گا، کے کھوکھلے نعرے رہ گئے ہیں، اس طرح نہیں ہوتا۔ میں اس عمر میں قتل نہیں ہونا چاہتا“۔

انہوں نے کہا کہ 50 سال کے عرصے میں زبان اور مذہب سمیت سب کچھ تبدیل ہوجاتا ہے، 50 سال پہلے یہ مذہب نہیں تھا۔ ’’اچانک خدا حافظ بدل کر  اللہ حافظ ہو گیا‘‘۔

انہوں نے کہاکہ”میرا کوئی بھی ناول پانی کےذکر سے خالی نہیں ہے ۔’ بہاؤ‘ دریائے سرسوتی کے خشک ہونے کی کہانی ہے اور میں نے اسے اس وقت لکھا جب کسی نے موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں نہیں سنا تھا۔ راوی خشک ہو چکا ہے اور دریائے سندھ کا پانی انسانی استعمال کے قابل نہیں ہے‘‘۔

مستنصر حسین تارڑ نے کہا کہ”یہ مصنف کی ذمہ داری ہے کہ وہ پیشین گوئی کرے کہ کیا ہونے والا ہے چاہے یہ خدشہ بھی ہوکہ معاشرہ اس پر کوڑے برسا سکتا ہے “۔

جب بہاؤ کے لیے ایک نئی زبان بنانے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ انھیں حروف کے زمانے کی زبان بنانے کی ضرورت ہے اور براہوی اور تمل میں کسی بھی دوسری زبان کے مقابلے میں سب سے زیادہ دراوڑ الفاظ ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ” میں نے قدیم تمل شاعری پر بارکلے یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کا مقالہ کیا تھا اور میں نے اس سے کچھ الفاظ حاصل کیے تھے، کچھ اور میں نے علی عباس جلالپوری سے حاصل کیے تھے، علاوہ ازیں وہ پنجابی الفاظ، جن کی اصل دراوڑ ہے“۔ انہوں نے کہا کہ تخلیقی مصنفین نے اپنی گرائمر خود بنائی ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ وہ خواتین کے کرداروں کو اتنے بہترین انداز میں کیسے تخلیق کرتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ تمام عظیم مرد  مصنفین کے اندر عورتیں تھیں جب کہ قرۃ العین حیدر اور بانو قدسیہ جیسی عظیم خواتین مصنفین کے اندر مضبوط مرد موجود تھے۔

اس سوال پر کہ مصنفین لکھتے کیوں ہیں، مستنصر حسین تارڑ نے کہا کہ تخلیقی خواہش رکھنے والے لوگ چاہے  وہ معمار ہوں، رقاص یا افسانہ نگار، ان کی خواہش تھی کہ وہ خالق کی طرح کچھ تخلیق کریں اور اس  کا قرب حاصل کرسکیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کے خاندان میں کوئی مصنف نہیں تھا اور اپنے ابتدائی سالوں میں وہ صرف گھومنا اور پڑھنا چاہتے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ”اگر میں مصنف نہ ہوتا تو میں ایک قاری ہوتا،میں منصوبہ بند لکھاری نہیں ہوں“۔

اپنے لکھنے کی ابتدا کویاد کرتے ہوئے  انہوں نے کہا کہ” 1958 میں سوویت یونین میں یوتھ فیسٹیول تھا۔ میں وہاں انگلینڈ میں تھا اور میں یوتھ فیسٹیول میں شرکت کے لیے برطانوی وفد کا حصہ بن گیا۔ جب میں واپس گیا تو مجید نظامی نے مجھ سے اس تجربے کے بارے میں لکھنے کو کہا جو قندیل میں شائع ہوا تھا“۔

1968 میں میرے کچھ تجربات ہوئے جو میں نے سفرنامے نکلے تیری تلاش میں اور سنگ میل میں شیئر کیے تھے۔ کتاب کی اشاعت کے 52 سال مکمل ہونے پر ایک ڈیلکس ایڈیشن شائع کیا گیا۔مستنصر نے موت کے بارے میں بھی گفتگو کی  اور اپنے عارضہ قلب کے بارے میں بھی بتایا جس سے وہ حال ہی میں گزرے ہیں اور  جس کے بعد ان کے جسم میں پیس میکر لگایا گیا ہے۔

متعلقہ تحاریر