اگر آئین کہتا ہے الیکشن 90 دن میں ہوں تویہ کہنا  ہماری چوائس نہیں ڈیوٹی ہے، چیف جسٹس

اگر کوئی فیصلہ چیلنج نہیں ہوتا ہے تو وہ حتمی ہوتا ہے، عدالتی فیصلوں کی اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے، ہمیں بتایا گیا ہے سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، دیکھتے ہیں اب کیا ہوگا، چیف جسٹس کا تقریب سے خطاب

چیف جسٹس آف پاکستان  جسٹس عمر عطابندیال نے کہا ہے کہ آئین اگر کہتا ہے الیکشن 90 دن میں ہوں تویہ ہماری چوائس نہیں ڈیوٹی ہے، آئین کا تحفظ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔

لاہورکے نجی ہوٹل میں”آئین میں اقلیتوں کے حقوق “کے موضوع پر منعقدہ انفرنس سے خطاب میں چیف جسٹس کا  کہنا تھاکہ اگر کوئی فیصلہ چیلنج نہیں ہوتا ہے تو وہ حتمی ہوتا ہے، عدالتی فیصلوں کی اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے، ہمیں بتایا گیا ہے سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، دیکھتے ہیں اب کیا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے

سپریم کورٹ اختیاراتی ایکٹ: حکومت کی فل کورٹ بنانے کی درخواست دائر

عمران خان کا اگلے ہفتے سے 14 مئی تک ملک بھر میں جلسے کرنے کا اعلان

 

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہاکہ جب آئین کے نفاذ کی بات آتی ہے تو ہم اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتے،اگرآئین کہتا ہے کہ الیکشن 90 روز کے اندر ہوں گے تو یہ کہنا ہمارا فرض ہے،یہ ہماری چوائس نہیں ہے یہ ہمارا فرض ہے،چہ جائیکہ ایسا کہنے سے بچنے کیلیے کوئی بہانہ تلاش کیا جائے۔

چیف  جسٹس نے کہاکہ یہ ہے وہ کچھ جو ہوا ہے،آپ اسے تنازع کہتے ہیں لیکن میں معذرت خواہ ہوں کہ میں تنازع کا متحمل نہیں ہوسکتا،میں بہت عاجز انسان ہوں، آپ کہتے ہیں کہ آپ ہماری حمایت کرتے ہیں، براہ مہربانی ایسا مت کہیں،میں صرف سپریم کورٹ کا ایک رکن ہوں،اگر آپ آئین اور قانون کے ساتھ کھڑے ہیں تو آپ کو لازماً سپریم کورٹ آف پاکستان کی حمایت کرنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھاکہ اگر کوئی فیصلہ چیلنج نہیں ہوتا ہے تو وہ حتمی ہوتا ہے، عدالتی فیصلوں کی اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے، ہمیں بتایا گیا ہے سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، دیکھتے ہیں اب کیا ہوگا، عدالتیں ایگزیکٹو آرڈر پاس نہیں کرسکتیں، عدالتوں کے فیصلوں کی اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ جسٹس کارلنیئس 1960سے 1968تک چیف جسٹس رہے، وہ جب ریٹائر ہوئے تو ان کے کوئی اثاثے نہیں تھے، ججزکوانصاف کرناہے تو جسٹس کارلنیئس جیسے اوصاف ہونے چاہئیں، جسٹس کارنیلئس نے گورنر جنرل کے اسمبلی توڑنے کو غیرقانونی قرار دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 1964میں دوصوبوں نے جماعت اسلامی پرپابندی لگائی، مولانا مودودی کیس میں پابندی ہٹا دی گئی، جسٹس کارنیلئس نےکہا یہ بنیادی انسانی حقوق کامعاملہ ہے، پاکستان کے ہر شہری کوبنیادی حقوق حاصل ہیں، جسٹس کارنیلئس نے کہا ایگزیکٹو آفیسربنیادی حقوق کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے، پاکستان کا آئین اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے،  تین دہائیوں کے دوران انتہاپسندی کےباعث بےشمارجانیں گئیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاکستان کے لیڈرز، ادارے اور عوام آئین کی پاسداری کیلیے پرُعزم ہیں ، اسی حوالےسے سیاسی قیادت نے مذاکرات شروع کیے، آئین اگر کہتا ہے الیکشن 90 دن میں ہوں تویہ ہماری چوائس نہیں ڈیوٹی ہے، آئین کا تحفظ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ اگر کوئی فیصلہ چیلنج نہیں ہوتا ہے تو وہ حتمی ہوتا ہے، عدالتی فیصلوں کی اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے، ہمیں بتایا گیا ہے سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، دیکھتے ہیں اب کیا ہوگا، عدالتیں ایگزیکٹو آرڈر پاس نہیں کرسکتیں، عدالتوں کے فیصلوں کی اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے۔

متعلقہ تحاریر