پنجاب کے ضمنی انتخابات: کیا ن لیگ کو وفاداریاں تبدیل کروانے کا صلہ مل پائےگا؟
17 جولائی کو 25 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے جن میں 20 جنرل اور 5 مخصوص نشستیں ہیں ، یعنی شیڈول انتخابات 20 سیٹوں پر ہوں گے۔

پنجاب میں 17 جولائی کو ضمنی انتخابات کا دنگل سجے گا۔ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے بعد صورتحال مختلف ہوگئی ، حکمران جماعت ن لیگ 25 نشستوں میں سے 15 سے 17 نشستیں حاصل کرنے کا امکان.
تفصیلات کے مطابق سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کے منحرف ارکان ڈی سیٹ ہونے کے بعد ضمنی انتخابات 17 جولائی کو رہے ہیں ان 25 نشستوں میں سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کے لوگ کامیاب ہوئے تھے مگر حمزہ شہباز شریف کو پارٹی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ووٹ دینے کے باعث ان کو الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈی سیٹ کیا گیا اب ان میں سے 20 جنرل صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات ہونے والا ہے مگر اب کی بار پی ٹی آئی کے منحرف ارکان بیشتر ن لیگ کے ٹکٹ سے میدان میں اترے گئے۔
یہ بھی پڑھیے
حمزہ شہباز نے آئین پاکستان کو نازیبا اشارہ کرنے عطاتارڑ کو محکمہ داخلہ کا قلمدان سے نواز دیا
رانا ثناء اللہ کے نہلے پر چوہدری مونس الہٰی کو دہلا
17 جولائی 2022 کو ڈی سیٹ اراکین اسمبلی کی نشستوں پر تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کی حمایت یافتہ جماعتوں کے درمیان مقابلہ متوقع ہے ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے 10 سے زائد امیدواروں کا تعلق جہانگیر ترین گروپ ست یے جبکہ اپوزیشن یعنی پی ٹی آئی نے بیشتر نظریاتی کارکنان کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ان نشستوں پر 2018 کے انتخابی نتائج کا جائزہ لیں تو 20 میں سے دس نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے جو بعد ازاں تحریک انصاف میں شامل ہوگئے تھے حکومتی حکمت عملی کے مطابق انہی امیدواروں یا ان کے رشتے داروں جو ٹکٹیں جاری کی گئیں ہیں جو 2018 میں آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے تھے۔
ان 25 نشستوں میں 20 جنرل اور پانچ مخصوص نشستیں شامل ہے یعنی 20 سیٹوں پر ضمنی انتخاب شیڈول کے مطابق ہوگا۔ جبکہ باقی پانچ مخصوص نشستوں کا فیصلہ بھی ان نشستوں پر انحصار کرتا ہے۔
ترجمان پنجاب حکومت عطاء اللہ تارڑ کا نیوز 360 سے گفتگو میں کہنا تھا کہ 20 نشستوں میں 14-16 نشستوں میں کامیابی کا قوی امکان ہے اور اس حساب سے 3 یا 4 مخصوص نشستیں بھی ان کو مل جائے گی ۔
صوبائی دارالحکومت لاہور کے چار حلقوں میں الیکشن ہونے جا رہا ہے جس میں پی پی 158، پی پی 167، پی پی 168 اور پی پی 170 میں الیکشن ہورہا ہے۔
صوبائی دارالحکومت لاہور کے صوبائی حلقہ پی پی 158 میں 2018 میں عبدالعلیم خان کامیاب ہوئے تھے مگر ضمنی انتخاب میں اس حلقے سے عبدالعلیم خان نے الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے جبکہ ن لیگ اس حلقہ میں علیم خان کے نامزد امیدوار کو سپورٹ کرینگے 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے عبدالعلیم خان نے 52299 ووٹ حاصل لے کر کامیاب ہوئے انہوں نے ن لیگی امیدوار رانا احسن شرافت کو 7071 ووٹوں کے مارجن سے شکست دینے میں کامیاب رہے۔
لاہور کے صوبائی حلقہ پی پی 167 میں تحریک انصاف کے نذیر احمد چوہان 40704 ووٹ لے کر ایم پی اے منتخب ہوئے تھےاور انہوں نے ن لیگ کے میاں سلیم کو 2241 ووٹوں سے مارجن سے شکست دی تھی اب حکمران جماعت ن لیگ کی جانب سے ان کو ضمنی انتخابات میں ٹکٹ جاری کیا ہے تحریک انصاف نے اس حلقے سے شبیر گجر کو ٹکٹ جاری کیا ہے ۔
صوبائی حلقہ پی پی 168 میں منحرف رکن ملک اسد علی کھوکھر کامیاب ہوئے تھے اب پھر وہ ہی الیکشن لڑ رہے تھے مگر اس بار پی ٹی آئی کی بجائے وہ ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے۔ ملک اسد کھوکھر 2018 کے عام انتخابات میں این اے 136 پر الیکشن لڑا مگر کامیاب نہ ہوسکے تاہم عام انتخابات کے فوراً بعد 13 دسمبر 2018 کو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 168 سے ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد ایم پی اے بنے اور ان کے مقابلے میں رانا خالد قادری رنراپ رہے یہ انتخاب ایم پی اے سعد رفیق کی جانب سے نشست خالی کرنے پر ہوا تھا۔
صوبائی حلقہ پی پی 170 سے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن نے ترین گروپ کے نامزد امیدوار محمد امین ذوالقرنین کو ٹکٹ جاری کیا ہے انکے مد مقابل تحریک انصاف نے ابھی تک کسی امیدوار کو ٹکٹ جاری نہیں کیا گیا۔اس حلقے میں موجودہ حکومت کے معاون خصوصی عون چوہدری کے بھائی محمد امین ذوالقرنین تحریک انصاف کے ٹکٹ پر 2018 کے عام انتخابات میں 25180 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے انہوں نے مسلم لیگ ن کے امیدوار عمران جاوید کو 5000 ووٹوں کے مارجن سے شکست دی۔ محمد امین ذوالقرنین ںے 2005 سے ق لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا تھا۔
اسی طرح پنجاب کے باقی نشستوں پر بیشتر میں ن لیگ یا پی ڈی ایم کے حمایت یافتہ امیدوار وہی لوگ ہے جو 2018 کے عام انتخابات میں کامیاب ہوچکے ہیں۔