افسران اور عملے کی ملی بھگت سے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا ریکارڈ غائب
ذرائع نے نیوز 360 کو بتایا ہے کہ مریضوں کی 100,000 سے زائد فائلیں اور 45 لاکھ روپے سے زائد مالیت کے لوہے کے ریکس چوری کر لیے گئے ہیں۔
صوبائی دارالحکومت لاہور میں واقعہ جیل روڈ پر پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) سے مریضوں کا ریکارڈ ملی بھگت سے غائب کردیا گیا، جس سے دل کے اسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے ’مجرمانہ غفلت‘ ظاہر ہوتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسپتال سے مریضوں کا 2009 سے 2018 تک کا ریکارڈ غائب ہو گیا ، جس میں 2008 سے 2015 تک ایکسپائر فائلیں اور 2016 سے 2018 تک مریضوں کا ریکارڈ شامل تھا۔
یہ بھی پڑھیے
بلوچستان میں پاک فوج اور دیگر اداروں کی امدادی کارروائیاں جاری، کئی رابطہ پل بحال
محکمہ ایکسائز پنجاب میں کرپشن، افسران اور عملے کا خزانے کو کروڑوں روپے کا چونا
ذرائع کے مطابق مریضوں کی 100,000 سے زائد فائلیں اور 45 لاکھ روپے سے زائد مالیت کے لوہے کے ریک چوری کر لیے گئے ہیں۔ ایک رات میں عملے نے ملی بھگت سے انسٹی ٹیوٹ کا ریکارڈ روم مکمل خالی کردیا۔
نیوز 360 کو موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق واقعہ 5 ستمبر اور 6 ستمبر کی درمیانی شب کو پیش آیا ۔ نیوز 360 کو موصول ہونے والی تصاویر میں صاف دیکھا جاسکتا ہے اسپتال میں سامان کو غائب کرنے کیلئے دس سے زائد ٹرک اسپتال میں موجود ہیں اور لوہے کے ریک بھی ٹرکوں میں لوڈ کیے جا رہے ہیں۔
ذرائع نے نیوز 360 کو بتایا کہ ابتدائی طور پر، انتظامیہ نے معاملے کو چھپانے کی کوشش کی اور عملے سے کہا کہ وہ پولیس یا دیگر متعلقہ سرکاری حکام کو اس کی اطلاع نہ دیں۔ لیکن لاہور کے ایک بڑے اسپتال سے اتنی فائلیں غائب ہونا غیر معمولی بات ہونے کی وجہ سے سامنے آگئی۔
مزید تفصیلات کے مطابق چھ ستمبر کے واقعے سے متعلق تحقیقات شروع کی گئی۔ ایم ایس کی جانب سے دی گئی درخواست میں سیکورٹی گارڈ اویس علی ، اسٹور کیپر ثاقب اعوان اور سیکورٹی انچارج طاہر مقصود کے نام دیئے گئے ہیں ، جہنوں نے ریکارڈ روم کو ملی بھگت سے کھولا اور مریضوں کی فائلیں اور ریکس غائب کیے۔
میڈیکل سپرنٹینڈنٹ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی جانب سے پانچ رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دیدی گئیں جس کے کنوینر ڈائریکٹر پی اینڈ ڈی ڈاکٹر خالد محمود مقرر کیے گئے۔
دریں اثنا، اس معاملے کی انسٹی ٹیوٹ کی سطح پر تحقیقات کی گئی اور رپورٹس میں بتایا گیا کہ یہ معاملہ سنگین نوعیت کا ہے کیونکہ مریضوں کی 100,000 سے زیادہ فائلیں اسٹور سے غائب ہیں۔
مزید بتایا گیا ہے کہ چور اسی ریکارڈ روم سے 45 لاکھ روپے سے زائد مالیت کے لوہے کے ریکس بھی لے گئے ہیں۔
اسپتال انتظامیہ نے ابتدائی تحقیقات کی روشنی میں 7 ستمبر کو مقدمہ درج کرانے کے لیے شادمان پولیس کو تحریری شکایت درج کرا دی ہے۔
پی آئی سی کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر تحسین ریاض نے تصدیق کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی پوچھ گچھ جاری ہے جبکہ پولیس بھی قانونی کارروائی میں مصروف ہے۔
دوسری طرف اس پیشرفت نے بہت سے لوگوں کو چونکا دیا کیونکہ یہ واقعہ سب سے بڑے پبلک سیکٹر کارڈیک اسپتال میں پیش آیا جو کئی ک
یمروں اور سیکورٹی گارڈز کے علاوہ کئی انتظامی عہدیداروں کی کڑی نگرانی میں تھا۔ اتنا بڑا واقعہ سیکورٹی عملہ اکیلا نہیں کرسکتا اس میں ضرور اعلیٰ افسران شامل ہونگے۔ اس حوالے سے نیوز 360 کو مصدقہ ذرائع نے یہ بتایا کہ اس واقعہ میں سیکورٹی عملے کے علاؤہ اعلیٰ افسران بھی شامل ہے جن کو بچانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔
واضح رہے کہ پی آئی سی منشیات کے ردعمل، دل کے مریضوں میں ایکسپائر کارڈیک اسٹینٹس ڈالنے، غبن اور اس طرح کے دیگر واقعات کے اسکینڈلز کی گرفت میں ہے۔ ایک بڑا گھپلہ منظر عام پر آیا، ماضی میں مریضوں کو ملاوٹ والی دوائیاں دی جاتی تھیں جس کی وجہ سے ان میں سے 150 سے زائد اموات ہوئیں۔
اس سے قبل اکتوبر 2021 میں ایک اور رپورٹ سامنے آئی تھی جب وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقات میں بتایا گیا تھا کہ کارڈیک سرجنز نے دل کے مریضوں میں میعاد ختم ہونے والے سٹینٹس ڈالے تھے۔
شہر لاہور میں سرکاری سطح پر ایسے واقعات ہونے کوئی نئی بات نہیں اس سے قبل 2017 میں ریلوے کی سرکاری فائلیں غائب ہوئی۔ جس پر ڈپٹی چیف انجینئر سگنل محمد حنیف کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ ایل ڈی اے بلڈنگ میں پراسرار توڑ پھوڑ پر ریکارڈ کو آگ لگ گئی جس سے زمینوں کے متعلق اہم ترین ریکارڈ جل کر راگ بن گیا تھا۔