دعا زہرہ کیس میں ظہیر احمد پر اغواء اور حبس بےجا کا مقدمہ بنتا ہے، وکیل جبران ناصر

عدالت نے تفتیشی افسر سے ظہیر احمد کے فون کی سی ڈی آر رپورٹ اور ضمنی چالان طلب کرلیا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ میں دعا زہرہ کی بازیابی سے متعلق نئی درخواست پر سماعت ہوئی ، عدالت عالیہ نے جمع کرائی گئی درخواست میں محکمہ صحت ، محکمہ داخلہ سندھ ، آئی جی سندھ ، ایس ایچ او الفلاح ، ظہیر احمد و دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔ دوسری جانب جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی نے تفتیشی افسر سے ملزم ظہیر احمد کے موبائل فون کی سی ڈی آر اور مقدمے کا ضمنی چالان طلب کرلیا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ دعا زہرہ کو ظہیر احمد نے اغواء کیا ہے ، جب دعا زہرہ کے اغواء کا واقعہ ہوا اس وقت دعا کی عمر 13 سال 11 ماہ اور 19 دن تھی۔

یہ بھی پڑھیے

ظہیر احمد کی گرفتاری کا مطالبہ زور پکڑنے کا لگا ، ٹوئٹر پر بھی ٹرینڈ کرنے لگا

پانچ سال سے انصاف کے لیے در بدر ٹھوکریں کھا رہی ہوں، ام رباب چانڈیو

درخواست میں کہا گیا ہے کہ دعا زہرا کی عمر سے متعلق نادرا دستاویزات ، تعلیمی اسناد ، پاسپورٹ ، برتھ سرٹیفیکیٹ موجود ہے ، ظہیر احمد نے مغویہ کو پنجاب لے جاکر چائلڈ میرج کرلی ہے، جو سراسر قانون کے خلاف ہے ۔

درخواست میں یہ بھی موقف اختیار کیا گیا ہے کہ نکاح نامے پر شادی کی تاریخ 17 اپریل درج ہے اور دعا زہرہ کی عمر 18 سال ظاہر تاکہ نکاح کو جائز قرار دیا جاسکے۔

وکیل درخواست گزار کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 7 مئی 2022 کو دعا زہرا کی بازیابی کی درخواست سندھ ہائیکورٹ میں دائر کی تھی ، پولیس نے 6 جون کو دعا زہرہ کو سندھ ہائی کورٹ میں پیش کیا تھا ، عدالت نے دعا زہرا کی عمر کے تعین کا حکم دیا تھا۔

درخواست کے مطابق دعا زہرہ کا سنگل میڈیکل بورڈ نے بون اوسیفیکشن کے بعد عمر 17 سال کے قریب بتائی تھی ، جس پر عدالت نے دعا زہرا کو اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ بھی جانے کی اجازات دی تھی۔

درخواست میں کہا گیا ہے تاہم اب نئے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کے مطابق دعا زہرا کی عمر 16 سال سے کم ثابت ہوچکی ہے، پنجاب ریسٹرن میرج ایکٹ 2016 کے مطابق شادی غیر قانونی ہے، مغویہ کے ساتھ اگر جنسی زیادتی ثابت ہوتی ہے تو ملزم ظہیر احمد کے خلاف کارروائی کی جائے۔

سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہماری عدالت سے استدعا ہے کہ 14 سالہ کم عمر دعا زہرہ کو بازیاب کرانے کا حکم دیا جائے ، دعا زہرہ کو ظہیر احمد کی غیر قانونی حراست سے بازیاب کرا کہ والدین کے حوالے کیا جائے ، عدالت سے استدعا کے دعا زہرا کو ملک سے باہر لے جانے سے روک جائے۔

جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی آفتاب احمد بگھیو کی عدالت میں حبس بےجا اور  دعا زہرہ کے مبینہ اغواء کے مقدمے کی سماعت کی سماعت کی۔ ملزم ظہیر احمد کے وکیل بھی عدالت میں پیش۔

دوران سماعت جج آفتاب حمد بگھیو نے تفتیشی افسر سے ضمنی چالان کے علاوہ ظہیر احمد کی 15 سے 19 اپریل  تک کی  سی ڈی آر رپورٹ طلب کرلی۔

دوران سماعت جراع کرتے ہوئے دعا زہرہ کے والد مہدی علی کاظمی کے وکیل جبران ناصر نے جراع کرتے ہوئے کہا کہ از سر نو تحقیقات کے حکم سے سی کلاس چالان مسترد ہو جاتا ہے، ملزم پولیس کے پاس آتا ہے لیکن پولیس نے گرفتار نہیں کیا، دعا سے بار بار جھوٹ بلوایا گیا، کس کے کہنے پر بچی ایسا کرتی رہی۔

وکیل جبران ناصر کا کہنا تھا کل جب ملزم ملک سے باہر فرار ہو جائے تو کون زمہ دار ہوگا، ملزم عدالت میں پیش ہو کر اپنا کیس لڑیں۔

دوران سماعت عدالت نے سرکاری استفسار کیا کہ جو ملزم عدم گرفتار ہے آپ نے اس کا بیان پھر کیسے لیا، ملزم 15 اپریل کو کراچی میں تھا یا لاہور میں سی ڈی آر نکالیں۔

اس موقع پر تفتیشی افسر کا کہنا تھا ظہیر احمد کا جو پہلے نمبر دیا گیا تھا اس کے مطابق 15,16 اپریل کو کراچی میں نہیں تھے ، نئے نمبر کا دوبارہ سی ڈی آر نکالنی پڑی گی۔

بعد ازاں عدالت نے تفتیشی افسر سے ضمنی چالان کی کاپی اور ظہیر احمد کی سی ڈی آر کی تفصیل طلب کرتے ہوئے سماعت 20 جولائی تک ملتوی کردی۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وکیل جبران ناصر کا کہنا تھا کہ تفتیشی افسر نے عدالت کے سامنے موقف اختیار کیا کہ میرے پاس دعا زہرہ کی عمر کے تعین کے حوالے سے رپورٹ بھی تک نہیں ملی ہے ، جس پر عدالت نے اپنے پاس موجود میڈیکل رپورٹ کی کاپی تفتیشی  افسر کو فراہم کی۔

وکیل جبران ناصر کا کہنا تھا کہ نئی میڈیکل رپورٹ میں یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ دعازہرہ کی عمر ایسی نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے گھر سے باہر رہے ، وہ اس عمر میں ہے کہ اسے اغواء مانا جائے گا، دعا زہرہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اس کی عمر 17 ، 18 سال تھی جو جھوٹ پر مبنی تھا۔ اس لیے ہم ایک مرتبہ پھر حبس بےجا کی درخواست دے دی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ نے کیس کی آئندہ سماعت کا وقت 21 جولائی مقرر کیا ہے۔

متعلقہ تحاریر