ہینڈز کے معاذ تنویر نے سیلاب پر ریاست کے ردعمل کو ناقص قرار دیدیا

میں جہاں بھی گیا مجھے بالکل ناامیدی نظرآئی، یہ بہت بڑی تباہی ہے اور سوشل میڈیاجتنا بھی چاہے آپ کو اصل تباہی کا احساس نہیں دلاسکتا، رفاہی تنظٰیم ہینڈز کے ہیڈ آف کمیونی کیشن کا سیلاب زدہ علاقوں سے واپسی پر اظہار خیال

پاکستان کی معروف رفاہی تنظیم ہینڈز پاکستان کے ہیڈ آف کمیونی کیشن معاذ تنویر نے سندھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی درد ناک منظر کشی کرتے ہوئے امدادی سرگرمیوں کی مجموعی صوررتحال کو افسوسناک قرار دیا ہے۔

معاذ تنویر کہتے ہیں سیلاب کے حوالے حکومت سے لے کر امدادی اداروں تک بحیثیت ملک ہمارا ردعمل  ناقص رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سندھ حکومت کی نااہلی، درجنوں نئے ٹرانسفارمر سیلاب کی نذر ہوگئے

سندھ میں سیلاب سے متاثرہ 20 لاکھ بچوں کا تعلیمی سلسلہ چھوٹنے کاخدشہ

سندھ میں سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ضلع دادو کے دورے سے واپسی پر معاذ تنویر نے اپنے تجربات پاکستانی عوام تک پہنچانے کیلیے ٹوئٹر تھریڈ کا سہارا لیا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ اب جب میں کراچی واپس آیا ہوں اور سوچنے کے لیے کچھ وقت ملا ہے، میں سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں اپنے تجربے کے بارے میں لکھنے کے لیے خود کو تیار محسوس کرتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ  ہر جگہ ایک بات سامنے آئی، حکومت سے لے کر امدادی اداروں تک بحیثیت ملک ہمارا ردعمل ناقص رہا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ میں جہاں بھی گیا مجھے بالکل ناامیدی نظرآئی۔ دادو میں  کالی موری کے قریب  بے گھرافراد نے چھریوں اور لاٹھیوں سے ہمارا استقبال کیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ہم حکومت سے تعلق رکھتے ہیں ایک اور کٹ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ خوفزدہ اور نا امید تھے، کچھ کشتیاں لے کر اپنے سیلاب زدہ گھر واپس جا رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ میرے ذہن میں یہ سوال تھا اور اب بھی ہے کہ یہ  لوگ  واپس  اپنے پیروں پر کیسے کھڑے ہوں گے۔ اس تباہی  کا پیمانہ، وسعت اور نقصان،ذہنی، جذباتی اور جسمانی صدمہ۔ آپ اس سب سے واپس کیسے آئیں گے؟ پانی وہاں کچھ دیر ٹھہرے گا اور پھراس میں کھارا پن پیدا ہوجائے گا۔

معاذ تنویر نے کہاکہ یہ ضمیر پر ایک گھونسا ہے، میری مراعات یافتہ ذات نے خود کو بے چین محسوس کیا، ہم سب کچھ آنسو بہائیں گے اور آگے بڑھ جائیں گے ، ان لوگوں کو ویسی زندگی کبھی نہیں ملے گی جو یہ گزار چکے ہیں ۔ یہ بہت بڑی تباہی ہے اور سوشل میڈیاجتنا بھی چاہے آپ کو اصل تباہی کا احساس نہیں دلاسکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں پر بندوقیں کے تانی جارہی ہیں جو پہلے ہی  کنارے پر ہیں، صرف اس لیے کہ ایک گورا ان کے ٹینٹ سٹی کا دورہ کرنے آرہا ہے۔ایک بے گھر شخص نے کہا کہ ہم جانور تو نہیں، ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ ہماری بات سنو،ہم  کھائیں گے نہیں  اور میں صرف خاموش ہی رہ سکا کہ تسلی کس طرح دوں؟

معاذ تنویر نے کہا کہ اس سارے معاملے میں امید کی واحدکرن  میرا کام ہے، کم از کم کچھ کرنے کا میرا نظریہ،   اگر چہ یہ صرف ایک چھوٹی سی کوشش ہی کیوں نہ ہوبہت معنی رکھتی ہے۔

انہوں کہا کہ صرف ایک چیز جس پر لوگ استقلال کا مظاہرہ کرسکتے ہیں وہ ہے ایمان۔ غیب پر ایمان۔ وہ جو معجزات کا مالک ہے۔ ایمان ہی واحد معجزہ ہے جو ہم سب کی مدد کر سکتا ہے۔اگر آپ یہ نہیں جانتے کہ مدد کس طرح کرنی ہے؟ تو دعا کیجیے، بسااوقات دعاٹھوس کوشش سے زیادہ بارآور ثابت ہوتی ہے۔انہوں نے تمام دکھی سیلاب متاثظرین کیلیے دعا کی درخواست کی۔

متعلقہ تحاریر