سیلاب متاثرہ کسان قرض کے باعث دہرے عذاب میں مبتلا، بینک ہراساں کرنے لگے
ماہر تعمیرات اور محقق ماروی مظہر نے وزیراعلیٰ سندھ سمیت اعلیٰ حکام اور قانونی ماہرین سے معاملے کا نوٹس لیکر آواز اٹھانے کی اپیل کردی۔
سیلاب متاثرہ کسان قرضوں کے باعث دہرے عذاب میں مبتلا ہوگئے۔ ماہر تعمیرات اور محقق ماروی مظہر سندھ کے سیلاب سے متاثرہ کسانوں پر پڑنے والی نئی افتاد پر روشنی ڈالتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ مائیکرو فنانس بینک اپنے قرضوں کی وصولی کیلیے سیلاب میں گھرے کسانوں اور ان کی خواتین کو ہراساں کررہا ہے۔
ماروی مظہر نے وزیراعلیٰ سندھ سمیت اعلیٰ حکام اور قانونی ماہرین سے معاملے کا نوٹس لیکرآواز اٹھانے کی اپیل کی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
انجلینا جولی سیلاب متاثرین کی امداد کیلیے پاکستان پہنچ گئیں
روہڑی کا مختیارکار راتوں رات سیلاب متاثرین کا امدادی سامان ہڑپ کرگیا
ماروی مظہر نے اپنے ٹوئٹر تھریڈ میں لکھاکہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے دور نے دیہی علاقوں کے ڈھانچے کو درہم برہم کر دیا ہے۔ بحران کے وقت میں بینکنگ سیکٹر کی طرف سے صرف پریشان کیا جارہا ہے۔
How capitalism takes absolute advantage of the weakest 2 weeks ago my domestic staff came to me as a form of collective request from the village Chiho Solangi (Nausheroferoze) to see If any journalist would be interested to develop a story on injustice faced by the farmers. 2
— Marvi Mazhar (@marvimazhar) September 19, 2022
انہوں نے لکھا کہ سرمایہ داری کس طرح کمزوروں کا مکمل فائدہ اٹھاتی ہے ،2 ہفتے قبل میرا گھریلو عملہ گاؤں چھوہو سولنگی (نوشہروفیروز) سے اجتماعی عرضی لے کر میرے پاس آیا کہ آیا کوئی صحافی کسانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی کہانی لکھنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
انہوں نےبتایا کہ 2019 میں اے ایس اے پاکستان لمیٹڈ نے بہتر ذریعہ معاش کیلیے مائیکرو فنانس قرضے دیے اور زیادہ تر کسانوں نے چھوٹے کاروبار، پکے مکانات یا مویشیوں کیلیے قرض لیا۔2020 میں کسانوں کوقرضوں کی ادائیگی پر زیادہ شرح سود پر 4،5 ماہ کا کرونا ریلیف دیا گیا۔
No education, and lack of technical banking understanding- farmers believed that the relief was in their favor. And continued in the wrap of further loan. 2022, in the midst of unprecedented devastation due to climate crisis, where entire Sindh is submerged. 4
— Marvi Mazhar (@marvimazhar) September 19, 2022
انہوں نے لکھا کہ ناخواندگی اور تکنیکی بینکنگ کی سمجھ کے فقدان کےباعث کسانوں کا خیال تھا کہ ریلیف ان کے حق میں ہے اور وہ مزید قرضوں کی لپیٹ میں آگئے اور 2022 میں موسمیاتی بحران کی وجہ سے بے مثال تباہی کے نتیجے میں جہاں پورا سندھ ڈوب گیا ہے وہیں بینک پانی کے بیچوں بیچ کسانوں اور ان کی خواتین کو قرض کی وصولی کیلیے ہراساں کررہا ہے۔ کسانوں کے پاس نہ چھت ہے نہ سامان،اس وقت وہ اثاثوں کے طور پر اپنے مویشیوں کی حفاظت کر رہے ہیں ۔
جب بلند شرح سود لاگو کی جاتی ہے، پرکشش پیکجز کا لالچ دیا جاتا ہے اور کسانوں کو مسلسل قرضوں میں جکڑ اجاتا ہے ، یہ جانتے ہوئے کہ ان کے پاس معیشت میں مالیاتی خدمات سے متعلق شعور کی کمی ہے۔ ریگولیٹری ادارہ کہاں ہے؟
When high interest rates are applied, luring attractive packages, and constantly wrapping farmers with indebtedness, knowing that they have lack of awareness of financial services in the economy. Where is the regulatory body? 6
— Marvi Mazhar (@marvimazhar) September 19, 2022
وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سے گزارش ہے کہ سندھ کے لوگ جو نقل مکانی کا سامنا کر رہے ہیں وہ یہ نرم قرضے کیسے واپس کریں گے؟ مائیکرو فنانس بینکوں سے فائدہ اٹھانے والے کسانوں کو اپنے قرض کے حصول اور انتظام میں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
I hope article developed by @RiazSangi at @BBCUrdu reaches the higher ups and protect the farmers in these catastrophic times. May the legal fraternity come forward to protest / protect Farmers Rights in the times of Climate Crisis. 9
— Marvi Mazhar (@marvimazhar) September 19, 2022
انہوں نے لکھا کہ مائیکرو فنانس بینکوں سے مستفید ہونے والے چھوٹےکسانوں کیلیے بلند شرح سود اور ضمانت کی ضرورت کے یہ مسائل سب سے سنگین ہیں۔
Review the website and see how these Micro Finance institutions develop their model https://t.co/6u4jvcJXHd ll post @BBCUrdu article as soon as it gets published. Farmers of Sindh need relief, this is to collectively protest against non regularised microfinance infrastructure 10
— Marvi Mazhar (@marvimazhar) September 19, 2022
انہوں نے بی بی سی میں شائع ہونےو الا ریاض سانگی کا مضمون شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ امید ہے کہ یہ مضمون اعلیٰ حکام تک پہنچے گا اور آفت کے دنوں میں کسانوں کی حفاظت کا ذریعہ بنے گا۔امید ہے کہ قانونی برادری بھی احتجاج کیلیے آگے بڑھے گی اور موسمیاتی بحران کے دور میں کسانوں کے حقوق کا تحفظ کریگی۔