سکھر حیدر آباد موٹر وے منصوبے میں 2.1ارب روپے کی مبینہ کرپشن پر ڈی سی مٹیاری گرفتار
این ایچ اے نے موٹر وے کی زمین کے حصول کیلیے سندھ بینک سعید آباد برانچ کے اکاؤنٹ میں 2ارب 70کروڑ روپے جمع کروائے تھے، ڈی سی مٹیاری نے اے سی نصیر آباد اور برانچ منیجر کی ملی بھگت سے 2ارب 14 کروڑ روپے نکوالیے، اینٹی کرپشن اسٹیبشلمنٹ نے مقدمہ درج کرکے ڈی سی کا 3 روزہ ریمانڈ حاصل کرلیا۔
اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ حیدرآباد نے سکھر حیدر آباد موٹر وے ایم 6 منصوبےمیں 2.1 ارب روپے کی مبینہ کرپشن کے الزام میں ڈپٹی کمشنر مٹیاری محمد عدنان کو گرفتار کر لیا۔
حیران کن امریہ ہے کہ ضلع مٹیاری میں تعینات ایک بیوروکریٹ موٹر وے کی تعمیر کے لیے مختص کیے گئے فنڈز سے 2.1 ارب روپے سے زیادہ رقم نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیے
سکھر حیدرآباد موٹر وے کی تعمیر میں تاخیر، سندھ ہائی کورٹ کا اظہار برہمی
سکھر حیدرآباد موٹروے کی تعمیر، ہائی کورٹ نے این ایچ اے سے گارنٹی مانگ لی
انگریزی روزنامہ ڈان کے مطابق تقریباً ایک ماہ سے سندھ کے ضلع مٹیاری میں تعینات افسر نے سعید آباد میں سندھ بینک کی برانچ سے موٹر وے منصوبے کے لیے مختص 2.1 ارب روپے سے زائد کے فنڈز نکلوانے میں کامیاب ہوگئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ڈپٹی کمشنر مٹیاری محمد عدنان ،اسسٹنٹ کمشنر سعید آباد منصور عباسی اور سندھ بینک سعید آباد برانچ کے منیجر اس کرپشن اسکینڈل کے مرکزی کرداروں میں شامل ہیں ۔
اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ حیدرآباد نے جمعرات کو ڈی سی مٹیاری کو گرفتار کر کےمقدمہ درج کیا اور ان کا تین روزہ ریمانڈ حاصل کیا تاہم اسسٹنت کمشنر سعید آباد تاحال گرفتار نہیں ہوسکے۔
تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ سکھر حیدرآباد ایم 6 موٹروے کی زمین کے حصول کےبہانے سعید آباد میں سندھ بینک کی شاخ سے اوپن بیئرر چیک کے ذریعے 2.14 ارب روپے سے زائد رقم نکالی گئی۔تاہم رقم نکلوانے سے قبل دکار طریقہ کار کو پورا نہیں کیاگیا۔
قواعد کے مطابق زمین کے حصول کا عمل شروع کرنے کے لیے لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894 کے سیکشن 11 کے تحت ایک لینڈ ایکوزیشن ایوارڈ پاس کرنا ضروری ہے۔ اس طرح کا ایوارڈ کسی بھی مقصد کے لیے اراضی کے حصول کے لیے منظور کیا جاتا ہے اور متعلقہ فرد یا پارٹی کوطریقہ کار پورا کرنے کے بعد معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔
روزنامہ ڈان کو دستیاب دستاویزات کے مطابق نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) نے’ ڈی سی مٹیاری لینڈ ایکوزیشن‘ کے نام سے 2.70 ارب روپے سندھ بینک کے ایک اکاؤنٹ میں جمع کرائے تھے۔ تاہم 17 اکتوبر سے 11 نومبر کے درمیان زمین کے حصول کے لیے متعین اسسٹنٹ کمشنرمنصوری عباسی نے مختلف چیکس کے ذریعے 2.14 ارب ن روپے نقد نکالے،۔
تاہم نکالی گئی رقم کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا۔ڈی سی مٹیاری اور اے سی سعید آباد زمین کے حصول کی کارروائی کے لیے صرف جزوی ریکارڈ فراہم کر سکے، جس میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے خط و کتابت اور ادائیگیوں کا ریکارڈ بھی شامل ہےتاہم اسسٹنٹ کمشنر معاوضے کی ادائیگی کے عوض زمین کے حصول کا ریکارڈ مہیا نہیں کرسکے۔
اس اسکینڈل نے متعلقہ بینک کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے کیونکہ حکام کا کہنا ہے کہ زمین کے حصول کے بدلے معاوضے کی ادائیگی کے لیے کبھی بھی نقد لین دین نہیں کیا جاتا۔
ایک سرکاری اہلکار کے مطابق اس طرح کی ادائیگیوں کے لیے پے آرڈرز، ڈیمانڈ ڈرافٹ یا کراس چیک جیسے قانونی آلات استعمال کیے جاتے ہیں۔سندھ حکومت نے اس معاملے کو دیکھنے کے لیے 13 نومبر کو دو رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی تھی تاہم جب دو رکنی ٹیم تحقیقات کے لیے برانچ پہنچی تو منیجر چھٹی پر تھا۔
حیدرآباد میں بینک کے ایریا مینیجر تابش شاہ نے ٹیم کو بتایا کہ اسسٹنٹ کمشنرمنصور عباسی نے کئی خطوط بھیجے ہیں جن میں بینک کو ادائیگیوں کا بندوبست کرنے کی درخواست کی گئی ہے، جو ان کے عملے کو ان کے جاری کردہ اوپن بیئرر چیکس کے ذریعے جمع کرنا تھیں۔تاہم بینک یہ بتانے سے قاصر تھا کہ انہوں نے صوبائی محکمہ خزانہ کی اجازت کے بغیر اکاؤنٹ کیوں کھولا جو کہ اسٹیٹ بینک کے ضوابط کے تحت ایسے معاملات میں لازمی شرط ہے۔
دریں اثنا یہ معاملہ سندھ حکومت کی جانب سے اعلیٰ سطح پر اٹھایا گیا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو بھی کرپشن سے متعلق آگاہ کیا جا رہا ہے۔وفاقی حکومت کو ان افسران کے خلاف ضروری کارروائی کرنے کا بھی کہا گیا ہے، کیونکہ ان کا تعلق پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کیڈر سے ہے۔
یاد رہے کہ کارروائی سے چند گھنٹے قبل چیف سیکرٹری سندھ نے کرپشن کے الزام میں ڈپٹی کمشنر مٹیاری عدنان رشید کو عہدے سے فارغ اور اسسٹنٹ کمشنر نیو سعید آباد منصورعباسی کو معطل کردیا تھا۔