ریاست کو مفلوج کرکے لاڈلے کو لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، نواز شریف

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کا کہنا ہے کہ آمروں کے لیے نظریہ ضرورت ایجاد کرلیا جاتا ہے ، اور ہمارے جیسے وزرائے اعظم کو ایک اور دھکا دیا جاتا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے الزام تراشی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک لاڈلے کو لانے کے لیے کتنے جتن ہو رہے ہیں ، یہ دہرے معیار میری سمجھ سے باہر ہیں ، ہم کو تو ایک منٹ میں نکال دیا گیا، کسی کو حکومت کو نکالا جارہا ہے کسی کو حکومت میں لایا جارہا ہے۔

ان خیالات کا اظہار مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کیا۔ نواز شریف کا کہنا کسی کو پھانسی گھاٹ پر لٹکایا جارہا ہے ، کسی کو عمر قید کی سزا سنائی جارہی ہے ، آمروں کے لیے نظریہ ضرورت ایجاد کرلیا جاتا ہے ، اور ہمارے جیسے وزرائے اعظم کو ایک اور دھکا دیا جاتا ہے ، ڈکٹیٹروں کو گلے لگایا جاتا ہے ، ان کے گلے میں ہار پہنائے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے 

مریم نواز نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سہولت کاری قرار دے دی

مسلم لیگ ن کے سربراہ کا کہنا تھا جو ڈکٹیٹر آئین توڑتے ہیں ان کو آئین توڑنے کے انعام میں ، آئین میں تبدیلی کرنے کے اختیار دیئے جاتے ہیں۔ تین تین سال کے لیے کہا جاتا ہے کہ آپ آئین سے جو مرضی کھلواڑ کرلیں۔ آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ ان کو ہار پہنائے جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے ایک منتخب وزیراعظم کو نکال کر باہر کیا۔

نواز شریف کا کہنا تھا مجھ پر الزام تراشی کرتے ہوئے مجھے گاڈ فاردر تک کہہ دیا گیا ، مجھے سیسلین مافیا کہا گیا ، جج عظمت شیخ نے کسی کی پرموشن کے معاملے پر مجھے دھمکی دی کہ وزیراعظم کو پتا ہونا چاہیے کہ اڈیالہ جیل میں بڑی جگہ پڑی ہوئی ہے ، یہ ریمارکس ایک جج ملک کے وزیراعظم کے بارے میں پاس کررہا ہے۔ پارلیمنٹ کو بےوقعت اور مفلوج کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ حکومت کی کوئی رٹ دکھائی نہیں دیتی۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان میں حکومتیں اب کس طرح سے چلاکریں گی۔ کہا جاتا ہے کہ پارلیمان سب سے اعلیٰ ادارہ ہے ، کون سا اعلیٰ ادارہ ہے، آج اس کے کسی حکم کو کوئی اہمیت نہیں دی جارہی، پارلیمان کو ضرور اپنی طاقت دکھانی چاہیے ، اگر پاکستان نے ترقی کرنی ہے ، پاکستان نے زندہ رہنا ہے ، تو پارلمنٹ کو مداخلت کرنی ہوگی۔

سربراہ مسلم لیگ ن کا کہنا تھا کہ کسی ملک میں ایسا ہوتا ہے جیسی تصویر اس وقت پاکستان کی دکھائی دے رہی ہے ، دنیا کو تو چھوڑیں آپ ساؤتھ ایشیا کی بات کریں ، ہمارے اردگرد کے ممالک کی بات کریں ، ہم تو 70 سے یہی کچھ دیکھ رہے ہیں ، نظریہ ضرورت کے تحت پہلا فیصلہ 1953 میں آیا تھا۔ اور کیا نظریہ ضرورت صرف ڈکٹیٹروں کے لیے ہے؟ اگر مان لیا جائے کہ نظریہ ضرورت کچھ ہے تو وہ نظریہ ضرورت کبھی وزیراعظم کے لیے بھی استعمال کیا جائے۔ ہم ستر سالوں سے بار بار یہی تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ بار بار منتخت حکومت کو کک آؤٹ کیا جاتا ہے ، بار بار عدلیہ وزرائے اعظم کو دھکے دیتی ہے۔

نواز شریف کا کہنا تھا میں عدلیہ کی بات نہیں کررہا ، میں ان ججز کی بات کررہا ہوں جنہوں نے یہ کردار ادا کیا ہے ، آج بھی کچھ نہیں بدلا آج بھی وہی کردار ادا کررہے ہیں ، آج جس کیس کا فیصلہ آیا ہے اس کیس کا فیصلہ پہلے ہی چار ججز کی جانب سے پہلے ہی آچکا ہے ، ایک لاڈلے کے عشق میں سب کچھ برباد کیا جارہا ہے ، یہ فیصلہ نہیں ون مین شو ہے ، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن نے میرے خلاف فیصلے دیئے ، یہ ظاہری طور پر ہمارے خلاف فیصلے کررہے ہیں مگر اس کی سزا عوام کو مل رہی ہے ، میں نے کہا تھا کہ ایسے فیصلے آئیں گے تو ڈالر 500 روپے کا ہو جائے گا۔

متعلقہ تحاریر