امریکی سائفر میرے لیے نہیں جنرل باجوہ کے لیے آیا تھا، عمران خان کا دعویٰ
عمران خان کا کہنا ہے کہ اعظم خان نے جو کچھ کہا ہے اس میں بہت کچھ سچ نہیں ، ان کی کئی باتیں سچ بھی ہیں۔ جب تک میں اپنے کانوں سے نہیں سنوں گا مانوں گا نہیں۔
سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ سائفر میں ایسے چیزیں جو براہ راست اس حکومت اور اس کے سہولت کو ہٹ کرتی ہیں ، انہوں نے سازش کرکے ایک منتخب حکومت گرائی۔ مگر موجودہ حکومت اپنے پاؤں پر کلہاڑی میں ماہر ہے۔ حکومت میں موجود لوگوں کو اتنا خوف ہے کہ عمران خان کو کسی طرح سے الیکشن سے باہر کیا جائے ، کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ اگر میں الیکشن میں آگیا تو یہ ہار جائیں گے۔ یہ ہر وہ موقع تلاش کررہے ہیں کہ کسی طرح مجھے نااہل قرار دلوا کر انتخابات سے باہر کیا جائے۔
ان خیالات کا اظہار گذشتہ روز چیئرمین تحریک انصاف نے اپنے ویڈیو بیان میں کیا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے میں اعظم خان سے متعلق بات کروں گا۔ ان کا کہنا تھا جس اعظم خان کو میں جانتا ہوں وہ ایک ایماندار اور قابل شخص ہے۔ سائفر میں جو کچھ لکھا ہے میں سب کچھ کہہ نہیں سکتا۔ جب تک میں اعظم خان کے منہ سے نہیں سنوں گا میں مانوں گا نہیں۔ کیونکہ جو کچھ اعظم خان کے حوالے سے بیان چل رہا ہے اس میں بہت سے باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا ٹک ٹاک لانچ کرنے کا فیصلہ
نگراں سیٹ اپ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی ملی بھگت سے آئے گا، شاہ محمود قریشی
عمران خان نے دعویٰ کیا کہ اعظم خان سے جو کچھ بیان دلوایا گیا وہ لگتا ہے کہ زبردستی دلوایا گیا ہے۔ دو پارٹیاں زبردستی بنا دی گئی ہیں ، لوگوں کے سروں پر بندوق رکھ کر کہا جارہا ہے کہ آپ نے اس پارٹی میں جانا ہے اور آپ نے فلاں پارٹی میں جانا ہے۔ ہمارے لوگ اور عورتیں جیلوں میں پڑی ہیں۔ انہیں صرف یہ کہا جارہا ہے کہ آپ عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جائیں۔ اگر آپ وعدہ معاف گواہ بن جائیں گے تو آپ چھوٹ جائیں گے۔ یا پھر یہ اعلان کردیں کہ میں پارٹی چھوڑ رہا ہوں۔ اس وقت یہ سب تماشہ چل رہا ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اعظم خان نے جو کچھ کہا ہے اس میں بہت کچھ سچ نہیں ہے ان کی کئی باتیں سچ بھی ہیں۔
عمران خان نے امریکی سیفر کے حوالے سے کہا کہ 6 مارچ 2022 کو واشنگٹن میں پاکستانی سفیر اسد مجید اور امریکی نائب وزیر خارجہ ڈونلڈ لو کے درمیان باضابطہ ملاقات ہوتی ہے۔ اس ملاقات کے بعد پاکستان میں ایک سائفر آتا ہے اور جب میں اسے پڑھتا ہوں تو اس میں دو اہم چیزیں نظر آتی ہیں۔
سب سے بڑی بات یہ لکھی ہے کہ آپ نے عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ سے پاکستان کی وزارت عظمیٰ سے ہٹانا ہے اور ایک اور بات لکھی تھی کہ عمران خان نے اکیلے روس جانے کا فیصلہ کیا۔
آپ جانتے ہیں کہ اس وقت تک روس اور یوکرین کی جنگ شروع ہو چکی تھی اس لیے عمران نے اکیلے ہی یہ فیصلہ کیا۔ جبکہ ہمارے سفیر اسد مجید کہہ رہے ہیں کہ یہ فیصلہ عمران خان نے اکیلے نہیں کیا، بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز نے مل کر یہ فیصلہ کیا۔
جیسے ہی وہ (ڈونلڈ لو) بول رہا تھا ، رہے ہیں، میں اپنے سفیر کو سلام کرتا ہوں۔ انہوں نے مجھے پیغام بھیجا کہ آپ ان کے خلاف احتجاج کریں، انہیں ڈی مارش کریں کیونکہ انہوں نے بہت بری زبان استعمال کی ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اسد مجید ہمارے معزز سفیر تھے لیکن وہ غیرت پاکستان آکر نہیں جاگتی۔ سائفر آرمی چیف ، وزارت خارجہ اور مجھ تک آتا ہے۔
"جب میں اسے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اس میں یہ لکھنے کی ہمت کیسے ہوئی؟” وہ ایسا کیسے کہہ سکتا ہے اور جب میں دیکھتا ہوں کہ وہ ایک سفیر سے یہ کہہ رہا ہے کہ آپ اپنے وزیراعظم کو ہٹانا ہے ، تو میں دیکھتا ہوں کہ یہ میرے لیے نہیں ہے۔ سفیر میرے سامنے جوابدہ ہے تو مجھے کون ہٹا سکتا ہے؟
عمران خان نے خطاب کے دوران دعویٰ کیا کہ پاکستان میں مجھے کون ہٹا سکتا تھا؟ ایک آدمی جنرل قمر جاوید باجوہ۔ اصل میں سائفر جنرل باجوہ کو بھیجا گیا تھا۔ مجھے خبریں ملتی رہتی تھیں کہ آپ کی گورنمنٹ کو ہٹانے کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ آئی بی والے مجھے آکر بتاتے تھے کہ شہباز شریف کی خفیہ میٹنگز ہورہی ہیں۔ جنرل باجوہ کے فادر ان لا کے گھر پر میٹنگز ہورہی ہیں۔ لندن میں میٹنگ ہورہی ہیں۔ جب میں جنرل باجوہ سے پوچھتا تو کہتے تھے ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم نے مستقل حکومت چاہتے ہیں۔