حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ اُس وقت پبلک کردی جاتی تو آج 9 مئی نہ ہوتا، جاوید لطیف

مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما میاں جاوید لطیف نے کہا ہے کہ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ اُس وقت پبلک کردی جاتی تو آج 9 مئی نہ ہوتا۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جاوید لطیف نے کہا کہ جیل کی تصویریں کسی فائیو اسٹار ہوٹل سے کم نہیں، مئی جون کے مہینے میں مجھے تو کوئی سہولت نہیں دی جاتی تھی۔

جاوید لطیف نے کہا کہ جیل میں مجھے تو مئی جون میں ایک ڈرم میں رکھا جاتا تھا، میں نے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان کے سامنے فریاد کی، مجھے کہا گیا تم اداروں کے خلاف اور ایجنسیوں کے متعلق بات کرتے ہو، مجھے کہا گیا تمہیں تو سنگسار کر دینا چاہیے تھا، مجھے کہا گیا تم پابندیاں برداشت نہیں کرسکتے تو پاکستان چھوڑ دو، کیا میں پاکستانی نہیں تھا؟

جاوید لطیف نے کہا کہ میری پیشی پر تو کرفیو لگا دیا جاتا تھا، کیا پاکستان کے اندر 9 مئی کرنا جرم نہیں، کسی کو گڈ ٹو سی یو اور مجھے سیسیلین مافیا اور گاڈ فادر کہا جائے۔

انہوں نے کہا کہ منصوبہ سازوں کے نام پبلک نہیں کیے جا رہے، دعوت دے رہے ہیں دوسرا 9 مئی ہو جائے۔

ن لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ میں کہتا ہوں بانی پی ٹی آئی پر جتنے ناجائز مقدمے ہیں فوری ختم کیے جائیں، ملک کے اندر 75 سال بعد بحث ہے کہ مقبول کون اور معقول کون ہے۔

انہوں نے کہا کہ انصاف کا دُہرا معیار قائم ہو جائے تو پھر ریاست کی بقا کی فکر ہوتی ہے، بھٹو کو 45 سال بعد کہا جائے اس وقت انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے، 10 سال بعد نوازشریف کو انصاف ملے مگر آج یہ نہ کہا جائے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔

جاوید لطیف نے کہا کہ مفاہمت کا اوپن کورٹ میں کہا جا رہا ہے یہ خوشی نہیں لمحہ فکریہ ہے، ملک میں قانون تبدیل کردیں، عدت کا قانون تبدیل کردیں، کسی خاص کے لیے قانون نہیں عام کے لیے سولی پر لٹکا دو، 190ملین پاؤنڈ کوئی جرم نہیں مگر موبائل چھیننا بہت بڑا جرم ہے۔

متعلقہ تحاریر