جہانگیر ترین اور علیم خان نے اپنوں اور بے گانوں سب کو حیران کردیا
پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا خواب دیکھنے والی ق لیگ غیر متعلقہ ہوکر رہ گئی، دوسروں کو نہ گھبرانے کا مشورہ دینے والے وزیراعظم گھبرا گئے، اپوزیشن جماعتیں بھی پریشان ہوگئیں

وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے شور شرابے میں تحریک انصاف کے دو ناراض رہنماؤں جہانگیر ترین اور علیم خان نے سیاسی چال چل کر اپنوں اور بے گانوں سب کو حیران کردیا۔
تحریک عدم اعتماد کی تیاری میں مصروف اپوزیشن جماعتیں ہوں یا حکومت اور اپوزیشن سے ساز باز اور دام بڑھانے میں مصروف ق لیگ یا سب کچھ کنٹرول میں ہونے کا دعویٰ کرنے والی حکومت، جہانگیر اور علیم کی جوڑی نے سب کو حیران کرکے رکھ دیا۔
یہ بھی پڑھیے
علیم خان 40 ایم پی ایز سمیت ترین گروپ میں شامل، عثمان بزدار پرُاعتماد
حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد ، تاریخ پے تاریخ کی نذر
جہانگیر ترین اور علیم خان نے اپوزیشن کو کیسے حیران کیا؟
سیاسی گرما گرمی کے ماحول میں عبدالعلیم خان نے جہانگیر ترین گروپ میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرکے خود کو موجودہ سیاسی منظر نامے میں سب سے نمایاں کرلیا ہےاور سیاست اور میڈیا کا رخ اسلام آباد سے پنجاب کی جانب موڑ دیا ہے۔ جہانگیر ترین اور علیم خان کا اتحاد اس وقت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ جس کا بھی ساتھ دیگا جیت اسی کا مقدر بنے گی۔ج اور ع کی جوڑی اگر پنجاب میں بزدار حکومت چلتا کرنا چاہے تو وہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی مدد سے بآسانی اپنا ہدف حاصل کرسکتی ہے بدلے میں صرف انہیں عمران خان کی حکومت گرانے میں اپوزیشن کی مدد کرنا ہوگی۔ لیکن بزدار حکومت گرانے کیلیے ج اور ع کی جوڑی کو اپوزیشن سے ہاتھ ملانا ضروری بھی نہیں ہے۔وزیراعظم عمران خان ،جہانگیر ترین اور علیم خان کو رام کرنے کیلیے عثمان بزدار کو ہٹاکر ان کے گروپ کا وزیراعلیٰ لے آئیں تو بھی نہ صرف ان کی حکومت بچ سکتی ہے بلکہ اپوزیشن کے منصوبوں پر بھی پانی پھر سکتا ہےاور یہی وہ ممکنہ صورتحال ہے جس کے باعث اوپوزیشن جماعتیں حیران پریشان ہیں۔
ج اور ع کی جوڑی نے موجودہ صورتحال میں ق کو غیرمتعلقہ کردیا
جہانگیر ترین اور علیم خان کے اتحاد نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے سپنے دیکھنے والے چوہدری پرویز الہٰی اور ان کی جماعت مسلم لیگ ق کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ کل تک کیا حکومت اور کیا اپوزیشن سب چوہدری برادران کے در پر دوڑے دوڑے چلے آرہے تھے لیکن ج اور ع کی جوڑی بنتے ہی ق لیگ موجودہ سیاسی صورتحال میں غیر متعلقہ ہوکر رہ گئی ہے۔پنجاب یا وفاق میں حکومت گرانے کیلیے اب اپوزیشن کو ق لیگ کی بے ساکھیوں کی ضرورت نہیں رہی۔ترین گروپ کے 40 ارکان کے ساتھ ن لیگ بآسانی پنجاب میں حکومت گراسکتی ہےجبکہ وفاق میں بھی تحریک عدم اعتماد کے نمبر پورے کرنے کیلیے اپوزیشن کو ترین گروپ کا سہارا کافی ہوگا۔ایسے میں ق لیگ کے پاس سودے بازی کی پوزیشن سے پیچھے ہٹ کر پرانی تنخواہ پر کام کرنے کا آپشن ہی باقی رہ گیا ہے۔
ج اور ع کے اتحاد نے وزیراعظم کو گھبرانے پر مجبور کردیا
عبدالعلیم خان کی جہانگیر ترین گروپ میں شمولیت کے نتیجے میں حکومت کے اعتماد کو بھی شدید جھٹکا پہنچا ہے اور دوسروں کو نہ گھبرانے کا مشورہ دینے والے وزیراعظم عمران خان خود گھبراہٹ میں مبتلا ہوگئے ہیں یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے عبدالعلیم خان کو منانے کا ٹاسک اپنےاہم ترین کھلاڑی گورنر سندھ عمران اسماعیل کو سونپ دیا ہے جنہوں نے گزشتہ روز علیم خان سے ملاقات کی تھی اور آج علیم خان کے تحفظات لے کر وزیراعظم کے پاس جائیں گے۔میڈیا میں یہ افواہیں بھی گرم ہیں کہ علیم خان وزیراعظم سےخاصے ناراض ہیں اور انہوں نے گزشتہ روز وزیراعظم کا فون بھی نہیں سنا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو گھر بھیجنے کا مطالبہ تسلیم کرکے ج اور ع کو رام کرتے ہیں یا پھر ج اور ع اپوزیشن کے ساتھ ملکر بزدار حکومت کو چلتا کریں گے،بہرحال اونٹ جس کروٹ بھی بیٹھے عثمان بزدار کا اس کے نیچے آنا اب یقینی نظر آتا ہے۔
کیا سیاست اور میڈیا کا رخ پنجاب کی جانب موڑنا وزیراعظم کی چال ہے؟
موجودہ صورتحال کے تناظر میں ناقدین کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ علیم خان وزیراعظم کے اشارے پر ہی ان کی حکومت کو ریسکیو کرنے میدان میں آئے ہیں ۔ناقدین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عثمان بزدار کی قربانی دیکر علیم خان اور جہانگیر ترین کو رام کرلیں گے اور پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے ناراض ارکان کے گلے شکوے کسی حد تک دور ہوجائیں گے اور وہ مرکز میں حکومت کی حمایت جاری رکھیں گے یو اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے غبارے سے خود ہی ہوا نکل جائے گی۔