کیا ادارے اب بھی نیوٹرل نہیں؟ گورنر سندھ اور انصار عباسی نےنئی بحث چھیڑ دی

پاکستان جیسے سیاسی ماحول کے اندر ادارے کا نیوٹرل رہنا ممکن نہیں، گورنر سندھ:اسٹیبلشمنٹ کو سامنے آکر فریقین میں ثالث اور ضامن کاکردار ادا کرنا چاہیے ورنہ بہت سے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اب بھی جو کچھ ہورہا ہے شاید اس کے پیچھے کچھ ہے،انصار عباسی

کشیدہ ترین سیاسی  صورتحال میں  گورنر سندھ عمران اسماعیل اور سینئر تجزیہ کار انصار عباسی نے نئی بحث چھیڑدی کہ کیا ادارے اب بھی نیوٹرل نہیں؟

گورنر سندھ کہتے ہیں پاکستان جیسے سیاسی ماحول کے اندر ادارے کا نیوٹرل رہنا ممکن نہیں۔انصار عباسی نے تجویز پیش کی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو سامنے آکر فریقین میں ثالث اور ضامن کاکردار ادا کرنا چاہیے ورنہ بہت سے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اب بھی جو کچھ ہورہا ہے شاید اس کے پیچھے کچھ ہے

یہ بھی پڑھیے

پی ٹی آئی کے ایم این اے نور عالم خان کو دھمکیاں ملنے کی ویڈیو وائرل

تحریک انصاف کے 14 منحرف ارکان قومی اسمبلی کو شوکاز جاری

گزشتہ روز اے آر وائی نیو ز کے پروگرام الیونتھ آور میں میزبان وسیم بادامی نے گورنر سندھ عمران اسماعیل سے انٹرویو کے دوران سوال کیا کہ پاکستان کے اداروں کا جھکاؤ اس وقت کس طرف ہے؟

سیاستدان خود اداروں کو نیوٹرل نہیں رہنے دیتے، عمران اسماعیل

گورنر سندھ نے کہا کہ انہیں کوئی آئیڈیا نہیں ہے، ان  کا اداروں سے کوئی رابطہ نہیں ہے، اس لیے وہ اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے۔وسیم بادامی نے سوال کیا کہ کیا وہ نیوٹرل ہیں؟ اس پر گورنر سندھ نے کہا کہ نیوٹرل تو نہیں ہوسکتے کیونکہ پاکستان جیسے سیاسی ماحول کے اندر ادارے کا نیوٹرل رہنا ،انہیں نہیں لگتا کہ ایسی کوئی چیز ہوگی۔ہوسکتا ہے کہ وہ سوچنے کیلیے کچھ زیادہ وقت لیں لیکن وہ کوئی نہ کوئی فیصلہ توکریں گے۔
وسیم بادامی نے سوال کیا کہ  آپ نے کہا کہ ادارے نیوٹرل نہیں ہوسکتے، تو کیاادارے کا کسی ایک سیاسی اکائی کی طرف جھکاؤ خود ادارے کو متنازع نہیں بناتا؟ کیونکہ ایک سیاسی جماعت کے بہت سارے حامی ہوتے ہیں تو بہت سارے مخالفین بھی ہوتے ہیں ۔اس سوال کے جواب میں گورنر سندھ نے سیاستدانوں کو ذمے دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ سیاستدان خود اداروں کو نیوٹرل نہیں رہنے دیتے ۔

گورنر سندھ نے مزید کہاکہ  سیاستدان فیصلہ سازی کیلیے انتظار میں رہتے ہیں کہ یہاں سے فون آجائے اور وہاں سے فون آجائے، کبھی کبھی تو احساس محرومی ہوتا ہے کہ ہمیں فون نہیں آرہا دوسروں کو آرہا ہے۔جو آتا ہے یہی کہتا ہے کہ بات ہوگئی ہے، حالانکہ بات ہوئی ہو نہ ہوئی لیکن آپ کو مرعوب کرنے کیلیے  بات یہاں سے شروع کی جاتی ہے کہ بات ہوگئی ہے۔

پاکستان میں تیسرے فریق کا کردار ہمیشہ رہا ہے، کوئی اس بات کو جھٹلا نہیں سکتا،انصار عباسی

دوسری جانب گزشتہ روزہی  دنیا نیوز کے پروگرام دنیا کامران خان کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی انصار عباسی نے کہا کہ پاکستان میں تیسرے فریق کا کردار ہمیشہ رہا ہے، کوئی اس بات کو جھٹلا نہیں سکتا، میں کہتا ہوں خدا کا واسطہ اس مرتبہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ایک پروجیکٹ فیل ہوا ہے تو دوسرا  آجائے ۔اگر کرنا ہے توسہولت کاری کریں ضامن کے طور پر سامنے آئیں ، لیکن سب کچھ کھل کر ہونا چاہیے چھپ کر کچھ نہیں ہونا چاہیے، آپ  سہولت کاری کریں  ،ان کو بٹھائیں  اور ضامن بن کر پاکستان کی سمت کا تعین کریں۔چارٹر آف اکانومی،چارٹر آف گورننس،اداروں کی تعمیر اور احتساب  کروائیں اور پھر3،4 مہینے بعد الیکشن کروادیں۔

انہوں نے کہا جیسا شہباز شریف کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو نکال کر قومی حکومت بنائیں گے تو ایسا نہیں ہوسکتا ،  پی ٹی آئی کی بہت بڑی فالوئنگ ہے، ایسے کسی بھی پارٹی کو آپ پیچھے نہیں چھوڑ سکتے۔خدا کا خوف کریں ، اس ملک کا دیکھیں کیا حال ہورہا ہے ،ساتھ بیٹھ کر مسائل حل کریں،ہماری معیشت تباہ و برباد ہوگئی لیکن کسی میں سنجیدگی نہیں آکر دے رہی، ان کی سیاست دشمنیوں میں بدل چکی ہے۔

ملک کی خرابی میں سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ دونوں قصوروار ہیں، انصار عباسی

انصار عباسی نے مزید کہا کہ اس ملک کی خرابی کی جتنی ذمے داری سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے اتنی ہی اسٹیبلشمنٹ پر بھی عائد ہوتی ہےلہٰذا خدا کا واسطہ ہے کچھ کریں۔ناظرین انصار عباسی کی اس تجویز سے کامران خان بھی کُلی طور پر متفق نظر آئے ۔انہوں نے کہا کہ  صورتحال تاریک سرنگ کی طرف جارہی ہے، اگلے چھ مہینے میں کیا کچھ ہوگا،کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے ،ایسی صورتحال میں کسی کو تو مداخلت کرنی ہوگی اور موجودہ صورتحال میں آرمی چیف کے علاوہ کون مداخلت کرسکتا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کو کلیئر کٹ سہولت کار اور ضامن کردار ادا کرنا چاہیے،انصار عباسی

 پروگرام کےا ختتام میں انصار عباسی نے کہا کہ   عمران خان  کو سنہری موقع ملا تھا لیکن وہ ڈیلیور نہیں کرسکے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب جب تبدیلی آئے تو وہ بھی ہم غلط طریقے سے کریں ،اگر انہوں نے کچھ غلط کیا ہے تو ان کے ساتھ بھی غلط نہیں ہوناچاہیے۔اگر اس  ملک میں اسٹیبلشمنٹ ہے جو کہ ہے اور ہمیشہ رہی ہے تو انہیں کلیئر کٹ سہولت کار اور ضامن کا کردار ادا کرنا چاہیے اور سب کچھ کھلے عام لوگوں کے سامنے ہونا چاہیے کوئی چیز چھپ کر نہیں ہونی چاہیے کیونکہ بہت سے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ابھی بھی جوکچھ ہورہا ہے شاید اس کے پیچھے کچھ ہے۔

 

متعلقہ تحاریر