کیا عمران خان میڈیا کو آزادی دینے کے بیانیے پر قائم رہ پائیں گے؟
چیئرمین تحریک انصاف اگلے ہفتے سے ملک گیر تحریک شروع کرنے جارہے ہیں جس میں انہوں نے اپنا فوکس میڈیا کی آزادی پر رکھنا ہے۔
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مستقبل قریب کئی نامور میڈیا ہاؤسز کے معروف صحافیوں پر پابندیاں لگ سکتی ہیں ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کے سربراہ بتانا پسند کریں گے کہ انہیں یہ خبریں کون دے رہا ہے کہ صحافیوں پر پابندیاں لگنے جارہی ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے آئندہ دنوں میں ان کا سارا فوکس میڈیا اور میڈیا سے وابستہ لوگوں کی آزادی پر ہوگا۔
انہوں نے متنبیہہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آنے والے چند دنوں میں بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز اور معروف صحافیوں پر پابندیاں لگ سکتی ہیں۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ میں اپنی قوم کو ان میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں کے خلاف امپورٹڈ حکومت اور ریاستی مشینری کی بے مثال کریک ڈاؤن مہم سے خبردار کرنا چاہتا ہوں جو پی ٹی آئی اور میرے بیانیے کو عوام تک پہنچا رہے ہیں۔”
عمران خان نے آگے بڑھتے ہوئے لکھا ہے کہ "دو صحافی ارشد شریف اور صابر شاکر کو جان کے خوف سے پاکستان چھوڑنا پڑ گیا۔”
سابق وزیراعظم نے مزید لکھا ہے کہ "عمران ریاض ، سمیع ابراہیم اور ایاز امیر جیسے دیگر صحافیوں کو دھمکیوں ، پرتشدد حملوں اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اپنی عوامی مہم کے دوران عمران خان کا فوکس باتوں پر ہوگا اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ "اگلے ہفتے سے پاکستان بھر میں اپنی عوامی مہم میں، میں میڈیا کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کا مسئلہ اٹھاؤں گا۔”
پی ٹی آئی کے چیئرمین کا مزید لکھنا ہے کہ "اگر ہم ان دہشت گردی کے ہتھکنڈوں کو کامیاب ہونے دیتے ہیں، جو محض پی ٹی آئی کو نشانہ بنانے کے لیے بنائے گئے تھے اور خود کو بچانے کے لیے، تو ہم آمریت کے سیاہ دور کی جانب لوٹ جائیں گے جب نہ کوئی آزاد میڈیا تھا اور نہ ہی آزادی اظہار کی کوئی گنجائش تھی۔”
عمران خان لکھتے ہیں کہ "حقیقی آزادی ، آزاد میڈیا اور آزادیِ اظہار کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی جیسا کہ ہمارے آئین میں ضمانت دی گئی ہے۔
تجزیہ کاروں نے عمران خان کے بیان پر سوال اٹھایا ہے کہ "کیا عمران خان صاحب اس بات کی یقین دہانی کرائیں گے کہ اگر آئندہ وہ برسراقتدار آتے ہیں تو وہ میڈیا کو ویسی ہی آزاد دیں گے جیسا کہ آئین پاکستان میں لکھا ہے؟” اور جس کے لیے وہ ابھی سے کوشش شروع کررہے ہیں ، ایسا بیان سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ابھی وہ اپوزیشن میں ہیں ، اصل تو آگے چل کر پتا چلی گی کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ورنہ ان کے منسٹر فواد خود ذاتی طور پر سمیع ابراہیم اور مبشر لقمان پر ہاتھ اٹھا چکے ہیں اور خان صاحب نے اس کی مذمت بھی نہیں کی تھی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں مختلف میڈیا ہاؤسز خاص طور پر پرنٹ میڈیا کو سرکاری اشتہارات کی بندش کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کی وجہ سے کئی اداروں میں صحافیوں کی چھانٹی کردی گئی تھی اور تنخواہوں میں کٹوتی الگ سے ہوئی تھی۔ اسی دور میں میڈیا ہاؤسز کو درپیش مالی بحران کے علاوہ مختلف صحافی پابندی جیسی صورتحال سے گزرے تھے۔
تجزیہ کاروں کا سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان صاحب یہ بتانا پسند کریں گے کہ انہیں یہ اطلاعات کون دے رہا ہے کہ مزید میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں پر پابندی لگنے جارہی ہے ، یا صرف ہوا کا رخ اپنی جانب موڑنا چاہ رہے ہیں۔ ویسے عمران خان ہوا میں تیر چلانا خوب جانتے ہیں۔