نظام انصاف کا مذاق اڑاتے بھارت کا منوہر شرما اور پاکستان کا شارخ جتوئی  

صحافی عارفہ نور نے سپریم کورٹ کی جانب سے شاہزیب قتل کیس کے سزا یافتہ مرکزی مجرم شارخ جتوئی کی رہائی کے احکامات کا بھارتی سپریم کورٹ سے موازنہ کیا، صحافی نے کہا کہ منوہر شرما کو عدالت سے رہائی  ملنے کے بعد عوامی دباؤ پر دوبارہ جیل جانا پڑا اور وہ ایک مجرم کہلایا جاتا  ہے جبکہ شارخ جتوئی کو باعزت بری کردیا گیا

انگریزی روزنامہ ڈان نیوز میں شائع ہوئے ایک کالم میں صحافی عارفہ نور نے سپریم کورٹ کی جانب سے شاہزیب قتل کیس کے سزا یافتہ مرکزی  مجرم شارخ جتوئی کی رہائی کے احکامات کا بھارتی سپریم کورٹ سے موازنہ کیا ہے ۔

اخبار میں شائع کالم میں صحافی عارفہ نور نے بتایا گیا ہے کہ شاہزیب قتل جیسا ہی ایک واقعہ پڑوسی ملک میں بھی پیش آیا تاہم وہاں کی سپریم کورٹ نے عوامی احتجاج کے باعث عدالت سے رہا مجرموں کو دوبارہ گرفتار کرنےکے احکامات جاری کیے ۔

یہ بھی پڑھیے

 

 

عارفہ نور نے بھارت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی میں ایک سیاسی رہنما کے بیٹے نے ڈانس پارٹی میں  شراب نی پلانے پر ایک نوجوان ماڈل جیسیکا لال کو کلب کے اندر ہی گولی مار کر ہلا ک کردیا تھا  جوکہ بار ملازمہ تھیں ۔

مجرم منوہر شرما قتل کے بعد وہاں جائے واردات سے فرار ہوگیا تاہم اسے پولیس کی جانب سے گرفتار کرلیا گیا مگر پولیس اور انتظامیہ کی مکمل حمایت مجرم کے ساتھ رہی اوراسے قانونی فائدہ پہنچایا جاتا رہا جس کے باعث کیس کمزور ہوا ۔

پولیس نے آلہ قتل بھی برآمد نہیں کیا جبکہ کیس کے گواہان بھی تیزی بھی اپنے بیانات سے پلٹ گئے ۔ ایک مشہور اداکار جوکہ قتل کے گواہ کے بعد میں اپنے بیان سے مکر گئے کہ پولیس نے اپنی مرضی کے ایک بیان پر دستخط لیے۔

پولیس کی کمزور تفتیش، آلہ قتل کی عدم برآمدگی اور گواہاں کا اپنے بیانات سے مکر جانے کے بعد عدالت نے قتل کے ملزم  منوہر شرما  2006 میں  بری کردیا مگر اس کے بعد ملک بھر میں ہوئے احتجاج کے بعد سپریم کورٹ نے خود نوٹس لیا ۔

 مقدمے کی دوبارہ سماعت ہوئی غیرجانبدارانہ تحقیقات ہوئیں اور قتل کے مجرم منوہر شرما کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تاہم اسے 2020 میں پیرول پر رہا کیا گیا۔ اس نے تقریباً 17 سال جیل کاٹی تاہم اس دوران اسے تمام تر سہولیات فراہم  کی جاتی رہیں۔

عارفہ نور نے اپنے مضمون میں کہا کہ ٹھیک 10 سال بعد  پاکستان میں بھی ایسا ہی ایک لمحہ آیا جب  کراچی میں جھگڑے کے دوران  شارخ جتوئی نامی لڑکے نے  فائرنگ کرکے  نوجوان شاہزیب کو قتل کردیا  اور دبئی فرار ہوگیا ۔

سڑکوں اور سوشل میڈیا پر عوامی غم و غصے کو دیکھتے ہوئے حکام نے اسے دبئی سے گرفتار کیا اور پھر کراچی کی ایک انسداد دہشتگردی عدالت نے اسے  سزئے موت کی سزا سنائی تاہم ہائی کورٹ نے کیس سے دہشتگردی کی دفعات نکال دیں۔

ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ایک بار پھر سے سول سوسائٹی اور سوشل میڈیا صارفین کے احتجاج کے بعد سپریم کورٹ نے ایک بار پھر  شارخ جتوئی کو  جیل بھیج دیا مگر پھر خاموشی  سے اسے رہا کردیا گیا ۔

قانون نے مجرم کے اہل خانہ کو شاہ رخ کے اہل خانہ کے ساتھ رضانامے تک پہنچنے کی اجازت دی۔عدالت عظمیٰ نے معاہدے کو قبول کیا اور جتوئی نو سال بعد آزاد ہوگیا لیکن شرما  کی طرح اسے ایک سزا یافتہ آدمی کے طور پر بھی نہیں دیکھا جاتا ہے ۔

ڈان میں شائع اپنے کالم میں عارفہ  نور نے کہا کہ  دونوںممالک میں حیران کن مماثلت یہ آئی کہ عوام نے  اپنے احتجاج سے  اپنے اپنے ملک کی اشرافیہ کو پابند کیا جوابدہی کے لیے تاکہ اشرافیہ کے ایک حصے کو حاصل استثنیٰ میں تبدیلی پر مجبور کیا جا سکے۔

متعلقہ تحاریر