’پبجی نوجوانوں کو تشدد اور مار پیٹ سکھاتا ہے‘

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ پاکستانی نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہونے والا آن لائن گیم پبجی تشدد پر اکساتا ہے اور نوجوانوں کو مار پیٹ سکھاتا ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ گیم کے دوران پر تشدداہداف حاصل کرنا اور اُن اہداف کے لیے مخالفین کا قتل کرنے جیسے واقعات نوجوانوں کے میں  نقش ہو جاتے ہیں۔ یہی برتاؤ خود بخود عام زندگی کا حصہ بھی بننا شروع ہو جاتا ہے۔

حال ہی میں لاہورکے علاقے نواں کوٹ میں ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں نوجوان نے پبجی کے انداز میں فائرنگ کر کے اپنی ہی بھابھی، بہن اور محلے دار کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

سپرماریو برادرز گیم کی کیسیٹ 10 کروڑ روپے میں فروخت

تھانہ نواں کوٹ کے علاقے میں بلال نامی ملزم نے اپنے گھر والوں کے پبجی کھیلنے سے منع کرنے اور پبجی کا اکاؤنٹ ڈلیٹ کرنے پر 3 افراد کی جان لے لی تھی۔ جاں بحق ہونے والوں میں ملزم کی بہن ماریہ، بھابھی عظمیٰ نیلم اور راہگیر زاہد شامل ہیں۔ ملزم کی والدہ سمیت 3 افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ ملزم بلال پر الزام ہے کہ اُس نے صرف اتنی سی بات پر فائرنگ کی تھی کہ اُس کے گھر والوں نے اس کا پبجی اکاؤنٹ حذف کر دیا تھا جس میں بقول ملزم کے لاکھوں روپے تھے جو اُس نے گیم کھیل کر جمع کیے تھے۔

ذہنی امراض کی ماہر ڈاکٹر عالیہ آفتاب نے نیوز 360 کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’پب جی گیم ہتھیاروں سے کھیلا جانے والا آن لائن گیم ہے جو نوجوانوں میں بہت مقبول ہے اور یہ کھیلنے والے کو تشدد کی طرف راغب کرتا ہے۔‘

ویسے تو پبجی ایک گھنٹے کا گیم ہے مگر بار بار اور گھنٹوں پر تشدد گیم کھیلنے سے اس کے اثرات نوجوانوں کے لاشعور کا حصہ بن جاتے ہیں اور زیادہ گیم کھیلنے سے یہ لت بن جاتی ہے۔ ایسے پرتشدد گیمز سے کھیلنے والے کا پورا جسم اس گیم کے ساتھ جوڑ جاتا ہے اور وہ خود بہت طاقتور سمجھنے لگتا ہے۔

بچے اور نوجوان سارا سارا دن اور رات یہ گیم کھیلتے ہیں اس سے ذہنی تناؤ کے ساتھ ساتھ نفسیاتی بیمار ہونے لگتے ہیں ان کو غصہ بہت جلدی آجاتا ہے اور فورا ردعمل دینے کی عادت پڑ جاتی ہے۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر عالیہ نے بتایا کہ پب جی گیم کا اثر اس لئے بھی زیادہ ہے کیونکہ گیم کھیلنے دیکھنے اور سننے سے انسان کی تمام حسیات اس کی جانب متوجہ ہو جاتی ہیں۔ جب یہ گیم نوجوانوں کے لاشعور پر حاوی ہوجاتا ہے۔

ڈاکٹر عالیہ نے مزید بتایا کہ پوری دنیا میں پب جی نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے جو نوجوانوں کو بری طرح متاثر کررہے ہیں۔

اس گیم سے ایسے معاملات ہمارے سامنے آئے ہیں جن میں لوگوں کو موبائل فونز یا گیمز کی لت تھی جب ان مریضوں سے موبائل استعمال نہ کرنے یا گیم نہ کھیلنے کے لیے کہا جاتا ہے وہ غصہ ہوتے ہیں تشدد پر اتر آتے ہیں۔

نواجوان میں یہ گیم خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے اس کے روک تھام کیلئے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ماہر نفسیات نے بتایا کہ اس طرح کی لت کے شکار لوگوں کو ایک جھٹکے میں موبائل یا گیم سے دور کرنا ممکن نہیں ہے، ان کی کاؤنسلنگ کرنی پڑتی ہے۔

والدین کو ان ہر مکمل توجہ دینا ہوگئی ان کا دوست بنانا پڑھے گا دوست بن کے ان کو اچھی بری چیزوں کا بتائیں اور خیالی دنیا اور حقیقت کی دنیا میں فرق واضح کریں۔

پبجی پلیئر حماد عثمان 3 سالوں سے گیم کھیل رہے ہیں نیوز 360 سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ان کے والدین ان کے پبجی کھیلنے والی عادت کو شدید ناپسند کرتے ہیں اور وہ روکتے بھی ہیں۔ حماد عثمان کہتے ہیں اب ان کو اس گیم کی لت لگ چکی ہے وہ چاہتے ہوئے بھی نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ انہیں اس سے سکون ملتا ہے اور دوستوں سے ملاقات ہوجاتی ہے۔

حماد عثمان سے جب پرتشدد برتاؤ اور غصے سے متعلق سوال کیے گئے انہوں نے تسلیم کیا کہ اب تک پبجی گیم کی وجہ سےنوجوان اپنے 2 مہنگے موبائل فونز بھی توڑ چکے ہیں۔ بعد میں اس کا افسوس بھی ہوا مگر اس وقت کچھ سمجھ نہیں آیا تو توڑ دیئے۔

حالیہ واقعات کی روشنی پر اقدام قتل کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں حماد کا کہنا تھا کہ اس گیم سے غصہ بھی آتا ہے اور تناؤ بھی زیادہ ہوتا ہے اُس وقت ہوش نہیں رہتا کون سامنے ہیں اور کیا ہو رہا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ ’پبجی پرتشدد گیم ہے جو چھوٹے دل والوں اور پہلے سے پریشان نوجوانوں کے لیے نہیں ہے ہم مانتے ہیں اس سے تشدد ہوتا ہے مگر دوسری طرف پب جی گیم سے آپ بہت سا پیسہ بھی کما سکتے ہیں۔ اس وقت لوگ ای گیمز کے ذریعے لاکھوں کروڑوں کما رہے ہیں لاک ڈاؤن میں جب کچھ نہیں ہو کرنے کو تو پبجی سے اچھا کوئی گیم نہیں ہے۔‘

متعلقہ تحاریر