سوشل میڈیا پر لگام ڈالنے کیلئے انٹرنیٹ کمپنیز میں قومی فائر وال نصب ہوگا، وی پی این کا غلط استعمال روکنے کی تیاری
دی نیوز کو چار مختلف ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سوشل میڈیا پر لگام ڈالنے کیلئے انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی مختلف کمپنیوں میں ایک قومی فائر وال انسٹال (نصب) کیا جا رہا ہے تاکہ ناپسندیدہ مواد کو وسیع تر انٹرنیٹ صارفین تک پہنچنے سے روکا جا سکے۔
ایک موقر ذریعے نے استفسار پر تصدیق کی ہے کہ یہ فائر وال خریدا جا چکا ہے اور اب اسے انسٹال کیا جا رہا ہے۔
پاکستان پہلے ہی یہ ٹیکنالوجی استعمال کر رہا ہے لیکن اسے صرف ویب سائٹس اور سوشل میڈیا ایپس کو بلاک کرنے کیلئے استعمال کیا جا رہا تھا۔
2013 میں، کینیڈا کی کمپنی نیٹ سویپر کے فائر والز (فلٹرز) انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے سب سے بڑے ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈ میں انسٹال کیے گئے تھے۔
یہ کمپنی پاکستان کو باقی دنیا سے جوڑنے والی سب میرین کیبلز میں 65 فیصد سے زائد کی شیئر ہولڈر ہے۔ تازہ ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے مختلف انٹرنیٹ پروٹوکول ایڈریسز سے سامنے آنے والی معلومات کا جائزہ لیا جا سکے گا اور اس کی نگرانی کی جا سکے گی۔
اس منصوبے سے آگاہ ایک سرکاری عہدیدار کا کہنا تھا کہ قومی فائر وال دو مقاصد کو پورا کرے گی: ان مقامات کی نشاندہی کرے گی جہاں سے پروپیگنڈے کا مواد شروع ہو رہا ہے اور ساتھ ہی ان اکاؤنٹس کو بلاک کیا جا سکے گا یا پھر اس تک رسائی محدود کر دی جائے گی، تاہم انہوں نے رائے پیش کرتے ہوئے کہا کہ بنیادی مقصد پروپیگنڈہ کرنے والے تک پہنچنا اور برائی کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا۔
یہ فائر وال فلٹرز فیس بک، یوٹیوب اور ایکس (سابقہ ٹوئٹر) جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی نگرانی کیلئے ہوگا۔
ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) کے غلط استعمال کو روکنے کی تیاری بھی ہو رہی ہے کیونکہ حکومت اس بات کو لازمی قرار دے سکتی ہے کہ وی پی این کے استعمال سے قبل پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو آگاہ کیا جائے بصورت دیگر خلاف ورزی کرنے والا مصیبت کا سامنا کر سکتا ہے۔
حکومت کی جانب سے کئی ماہ سے ٹوئٹر کو بلاک کیے جانے کے باعث شہری وی پی این کے ذریعے یہ سروس استعمال کر رہے ہیں۔ ان میں سے کئی وی پی اینز کو ابتدائی طور پر بلاک کر دیا گیا تھا لیکن اس صورتحال نے کارپوریٹ کمیونٹی میں بے چینی کو جنم دیا کیونکہ دنیا بھر کے بڑے کاروباری ادارے وی پی اینز کو اپنے راز چھپانے کیلئے استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان اداروں کی اندرونی رابطہ کاری میں خفیہ معلومات بھی شامل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وی پی اینز کی وجہ سے کارروائی کچھ وقت کیلئے روک دی گئی تھی
۔ کیا ٹویٹر کی بندش دانشمندانہ قدم تھا کیونکہ بہت سے لوگ اسے اب بھی وی پی اینز کے ذریعے استعمال کر رہے ہیں؟
ایک سرکاری عہدیدار نے اس سوال کا جواب اثبات میں دیا اور کہا کہ ٹوئٹر کا استعمال ساڑھے چار ملین صارفین سے کم ہو کر 2.4 ملین تک رہ گیا ہے جس سے پاکستان میں بھی ٹوئٹر کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے، بوٹس کا استعمال بھی کم ہو چکا ہے، یہی نہیں ٹوئٹر انتظامیہ نے ماضی کے برعکس حکومت کے مطالبات پر دھیان دینا شروع کر دیا ہے۔ ایسا ہی ایک مطالبہ پاکستان ایکس سروس مین سوسائٹی کے اکاؤنٹ کی بندش تھا۔
میجر (ر) عادل راجہ اس اکاؤنٹ کو استعمال کر رہے تھے حالانکہ وہ تنظیم کے عہدیدار نہیں تھے اور انہوں نے اکاؤنٹ واپس کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہی نہیں، وہ اس ہینڈل سے سابق فوجیوں کی جانب سے موجودہ فوجی قیادت کی مذمت کرتے ہوئے ٹویٹ کرتے تھے۔ پہلے ٹوئٹر والے اکاؤنٹ بند کرنے کیلئے پی ٹی اے کی درخواستوں کا جواب تک نہیں دیتے تھے لیکن اب وہ ہماری بات سن رہے ہیں۔